معروف سفارت کار اعزاز احمد چوہدری کی یادوں اور یادداشتوں پر مشتمل کتاب Diplomatic Footprints جس کا اُردو ترجمہ غالباً "دشت سفارت میں نقوش قدم" سے ملتا جلتا ہوگا، گزشتہ دو ماہ سے میرے ساتھ ہے۔
ایک تو میری انگریزی پڑھنے کی رفتار نسبتاً بہت کم ہے اور دوسرے ان دو ماہ میں رمضان کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ میں بھی غیر معمولی تیزی رہی ہے جس کی بنیاد "مداخلت یا سازش" والا وہ سفارتی پیغام رہا ہے جس نے نہ صرف ایک چلتی ہوئی حکومت کا تختہ اُلٹا دیا بلکہ جس کی وجہ سے ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات کے بعض ایسے پہلو بھی سامنے آئے جن سے شائد عملی طور پر بہت کم لوگ واقف تھے۔
جہاں تک اس کتاب یا اعزاز چوہدری صاحب کی یادداشتوں کا تعلق ہے اگر چہ ان میں امریکا کا تذکرہ مختلف حوالوں سے کئی بار ہوا ہے مگر وہ سب اس واقعے سے پہلے کی باتیں ہیں، فارن سروس سے متعلق عام رواج کے برعکس ہمارے اعلیٰ بیوروکریٹس اور سفارت کاروں نے بہت کم اپنے مشاہدات اور تجربات کو تحریری شکل دی ہے مگر اس کے باوجود معیار کے اعتبار سے یہ کسی بھی (اس موضوع سے متعلق) بین الاقوامی ادب کے مقابلے میں اعتماد سے رکھی جاسکتی ہیں اور میرے نزدیک اعزاز احمد چوہدری اور چند برس قبل شائع ہونیوالی شمشاد احمد خاں صاحب کی کتاب کئی حوالوں سے اس فہرست میں پہلے نمبروں پر آتی ہے۔
اعزاز احمد چوہدری سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات گزشتہ صدی کی اسّی کی دہائی میں ایک فلائٹ کے دوران ہوئی جب وہ دوحہ قطر سے اپنی ملازمت کی میعاد پوری کرکے واپس وزارتِ خارجہ میں رپورٹ کرنے جارہے تھے اور میں دوحہ میں ہونیوالے ایک مشاعرے میں شرکت کے بعد واپس آرہا تھا، دوسری باقاعدہ ملاقات چند برس قبل ہالینڈ میں ہوئی جہاں وہ بطور سفیرپاکستان اپنی خدمات انجام دے رہے تھے اور زبردستی مجھے ہوٹل سے اُٹھا کر اپنے پاکستان ہائوس نامی اُس وسیع اور بیش قیمت سرکاری گھر میں لے گئے تھے جو ہالینڈ کی ملکہ نے مرحومہ بیگم رعنا لیاقت علی کو ایک ذاتی تحفے کے طور پر پیش کیا تھا مگر انھوں نے اسے حکومت پاکستان کو بغیر کسی معاوضے کے پیش کر دیا تھا، اس دوران میں اُن سے ملاقاتوں کا سلسہ جاری رہا، ان کے بطور سفیر آخری پوسٹنگ کے دوران امریکا میں بھی ان کی مہمانداری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور یوں ذاتی محبت اور تعلق کے ساتھ ساتھ اُنکی شخصیت اور شاندار سفارتکاری کے بہت سے پہلو بھی سامنے آتے چلے گئے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے کہیں بھی اُس دِقّت کا احساس نہیں ہوا جسکی وجہ سے سفارتکاروں کی مخصوص احتیاط پسندی چیزوں کے بارے میں ذاتی رائے سے گریز اور اس علاقے کی مخصوص زبان اور اصطلاحات ہوتی ہیں، یہ بڑے رواں دواں انداز میں لکھی گئی ایک بصیرت افروز کتاب ہے جس میں آپ اُن کی وزارتِ خارجہ میں ملازمت کے دوران مختلف ملکوں کی تاریخ، تہذیب، ترقی، کلچر اور پاکستان سے متعلق روّیوں کا بھرپور مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا اور ہر حصے کے آگے ضمنی حصے ہیں تاکہ ہر بات کو اُسکی صحیح جگہ پر رکھ کر دیکھا اور دکھایا جاسکے۔ مرکزی آٹھ عنوانات اس طرح سے ہیں۔
1۔ یہ کہانی کب اور کیسے شروع ہوئی۔ 2۔ شروع کے دن۔ 3۔ امریکا 4۔ جنوبی ایشیا۔ 5۔ ٹیولپس 6۔ اسلام آباد۔ 7۔ فارن سیکریٹری۔ 8۔ کھٹے میٹھے اور سرد گرم۔
پہلے حصے میں وزیرآبادمیں گزارے ہوئے بچپن، خاندانی حالات و واقعات اور سرگودھا پی اے ایف کالج میں تعلیم کے دورانیے کی سرگزشت ہے جس کا انجام سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعد اُن کے فارن سروس کے آغاز پر ہوتاہے۔ کتاب کا یہ حصہ بہت دلچسپ ہے۔
کتاب کے مختلف ابواب میں آپ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں، اُن کے اثرات اور پاکستان سے ان کے فوری اور دُور رَس تعلق کو اچھی طرح سے جان اور سمجھ سکتے ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں جس نئے نظام، اسرائیل اور فلسطین، نائن الیون، کشمیر اور پاک ہند معاملات اور اختلافات کا جو منظر نامہ اُبھرا اور سامنے آیا ہے اور اب گزشتہ چند برسوں میں جس طرح سے امریکی اقتدار کی اجارہ داری کو چین اور روس چیلنج کرتے نظر آرہے ہیں، ان سب کا احوال آپ کو اس کتاب میں ایک بڑے متوازن انداز میں محفوظ ملے گا اور یوں یہ کتاب بین الاقوامی تعلقات پر تمام شعبوں کے لیے ایک قابلِ اعتماد گائیڈ کا کام دے سکتی ہے۔
ایک ایسا گائیڈجو سیاحوں سے ٹِپ حاصل کرنے کے لیے تاریخ کو توڑنے موڑنے کے بجائے اپنے تجزیے کو اظہار کے بین الاقوامی معیار کے مطابق جُوں کا تُو ں پیش کرنے پر یقین رکھتا ہے اور اس عمل میں کہیں ڈنڈی مارتا نظر نہیں آتا۔ میری اس بات کی تائید تو قارئین اس بہت عمدہ اور اہم کتاب کے مطالعے کے بعد ہی کرسکتے ہیں کہ یہاں اس کی تفصیل کو بیان کرنا بوجوہ ممکن نہیں البتہ اپنے مختصر دیباچے میں انھوں نے کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں جن سے یہ دریا کوزے میں بند ہوتا نظر آتا ہے یعنی انھوں نے ان اصولوں اور طریق کار کی وضاحت کی ہے جس کے مطابق یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ یہ چار بنیادی اصول انھی کے لفظوں میں کچھ ا س طرح سے ہیں۔
1۔ خفیہ اور سنسنی خیز مواد سے اس وقت تک شعوری اجتناب جب تک وہ معلومات عام یا سفارتی قیود سے آزاد نہ ہوجائیں حالانکہ کتاب لکھتے وقت اس اصول پر کاربند رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ اس طرح کی معلومات کا جزوی اظہار بھی کتاب کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ کرسکتا ہے۔ میرے نزدیک ایساکرنا ضمیر، پیشے اور ملک تینوں سے دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔
2۔ میں نے پاکستان سے متعلق بیانیے اور تناظرمیں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ معلومات کے ذکر کو معاملات کی بہتر اور شفاف تفہیم تک ہی محدود رکھا جائے، اس کے باوجود اگر کہیں کہیں کوئی بات اس اصول کی نفی کرتی محسوس ہو تو اس بات کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بہر حال یہ ایک ایسے شخص کا بیان ہے جو لاکھ احتیاط کے باوجود اپنے نسلی، وطنی اور نظریاتی محسوسات کا پابند بھی ہوتا ہے کہ یہ ایک فطری جذبہ اور عمل ہے۔
3۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ واقعات اور مسائل کو زیادہ سے زیادہ بے لوث اور غیرجذباتی انداز میں قلم بند کیا جائے اس میں عالمی مسائل پر بحث کے دوران لیے گئے نوٹس سرکاری فائلوں میں یقینا ایک مخصوص انداز میں لکھے جاتے ہیں مگر یادداشتوں کو قلم بند کرنے کے حوالے سے ان میں شخصی اور جذباتی تاثرات کو سِرے سے خارج کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔
4۔ میں نے پوری ایمانداری سے اس سفرِ حیات میں اپنے خاندان، محکمے، ملک اور اُن شاندار لوگوں کی محبت اور دانش کو سلام پیش کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے میری زندگی میں حقیقی مسّرت کی مقدارمیں اضافہ ہوا ہے۔ ا س اجمال کی تفصیل کے لیے آیئے کتاب پڑھیں۔