عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ امریکی قائدین جواس وقت حکومت کر رہے ہوتے ہیں۔ وہی پاکستانی لیڈروں سے ملاقات کرتے ہیں، مگر اس بار صورتحال مختلف تھی۔ کیونکہ اس دفعہ واشنگٹن کے گراؤنڈ میں تیس ہزارکے لگ بھگ پاکستانی نژاد امریکیوں نے عمران خان کا استقبال کر کے ان میں نئی روح پیدا کر دی کہ انھوں نے مختصر سے وقفے میں ڈیموکریٹک لیڈر نینسی پلوسی سے ملاقات کرانے کا بندوبست کر دیا جو نہایت مشکل تھا۔
نینسی پلوسی امریکا کے ان دانشوروں اور لیڈروں میں سے ایک ہیں جو پالیسی ساز ہیں اور اپنی اسی سالہ زندگی میں طویل عرصے عوام کی خدمت کی ہے اور وہ ڈیموکریٹک لیڈر شپ کو لے کر چلتی ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے کسی لیڈرکو یہ خیال پیش نظر رہا کہ امریکا کے ڈیموکریٹک لیڈرکو ری پبلکن لیڈروں کے ساتھ لے کر چلیں۔ اس طریقے سے عمران خان نے پاکستانی نژاد امریکیوں میں ایک نئی امنگ پیدا کر دی کہ ان کی واپسی کے ایک ماہ بعد امریکی شہر ڈیٹورائٹ میں یوم کشمیر منایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹورائٹ میں رہائش پذیر زیادہ تر افراد عرب دنیا کے باسی رہے ہیں اور ان کا سیاسی اثر غیر ملکی تنظیموں پر براہ راست پڑتا ہے۔ عمران خان نے جو سیاسی اثرات امریکا میں پیدا کیے اس میں مسٹر ٹرمپ بھی کشمیریوں کی حمایت پر آمادہ ہوئے، مگر نریندر مودی نے منفی رویہ اختیار کرتے ہوئے دنیا کے سامنے قانون کی بساط لپیٹ دی جس کے منفی اثرات خود مسٹر مودی کے لیے مشکلیں کھڑی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر آپ ایران کے حالیہ رویے کو بنیاد بنائیں تو واضح ہو گا کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے جو ٹیلی فون عمران خان کو کیا اس میں کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی مکمل حمایت کا اظہار تھا۔
واضح رہے کہ ایرانی تیل کی بھارت میں بڑی مارکیٹ ہے۔ اس کے باوجود ایران کا یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب کشمیر پر نہایت سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ جس کے اثرات محض عام لوگوں پر نہیں بلکہ خواص پر مرتب ہو رہے ہیں۔ جس طرح ڈیٹرائٹ میں جلسے کا انتظام کیا گیا اسی طرح سے اور بھی جلسے اور جلوس عمران خان کے روحانی ورکر امریکا بھر میں کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
بیرون ملک بڑے جلوس اپنا ایک مخصوص سیاسی دباؤ رکھتے ہیں، گزشتہ دنوں شکاگو شہر میں نائیجیریا کے لیڈر مسٹر ذک ذکی کی حمایت میں ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند یوم میں مسٹر ذک ذکی کو تمام سہولتیں میسر آگئیں، اگر امریکا بھر میں کشمیرکی کہانی زور و شور سے چلتی رہی تو نریندر مودی کی تمام ہوشیاریوں کے باوجود اس بات کا امکان بڑھتا جائے گا کہ معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھایا جائے۔ مگر اس کے لیے پاکستان کو اہم تدابیرکرنا ہوں گی۔
موجودہ صورتحال میں امن کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد مشکل راستہ ضرور ہے مگر اس کے علاوہ دوسرا راستہ بھی کشمیرکی آزادی کے لیے موزوں نہ نکلا، کشمیرکی آزادی کے لیے عام لوگ جنگ کے طریقہ کارکو اہمیت دیتے ہیں مگر جنگی صورتحال ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں کروڑوں انسانوں کی جانوں کا زیاں اول ہے۔
کیونکہ جنگ میں ہلاکت خیزی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ باوجود اس کے کہ دونوں طرف ایسے لوگ موجود ہیں جو انسان کی عظمت کو مقدم سمجھتے ہیں، مگر ایٹمی اسلحے کے استعمال کو بعیداز قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا اور یہی انسانی المیہ ہو گا۔ سست روی سے چلتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی بڑی کوششیں کی جاتی رہیں مگر مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو گیا اور اب چونکہ مسٹر مودی نے کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ قرار دے دیا۔ لہٰذا بات چیت میں مزید تلخی آ جائے گی۔
اب صورتحال ایسی ہے کہ اگر پاکستان مسٹر مودی سے کوئی مطالبہ کرتا ہے تو یہ جنگ کا پیش خیمہ ہو گا۔ ایسی صورت میں کسی بھی برادر ملک کی ضرورت ہے تا کہ اختلافات جنگ کے شعلوں کی نذر نہ ہو جائیں۔ مسئلہ کشمیر کب کا حل ہو چکا ہوتا اگر اقوام متحدہ اس کو ماضی کا ایک نمونہ سمجھ کر نظر انداز نہ کر دیتا اور اب تک اقوام متحدہ کوئی اہم قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔ اس قسم کے چھوٹے اور پیچیدہ مسائل بعض اوقات بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔
ذرا غور سے دیکھیے ایٹمی اسلحہ دونوں ملکوں کے پاس ہے لہٰذا:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
ایسی سنگین صورتحال میں عمران خان کو ظاہر ہے ان پیچیدگیوں کا علم ہے، اسی لیے انھوں نے کوشش کی کہ ٹرمپ کے ذریعے اس مسئلے کو آہستگی سے حل کر لیں۔ لیکن مسٹر مودی نے معاملات کو اور پیچیدہ کر دیا۔ لیکن موشگافیوں سے صورتحال اتنی جلدی تبدیل نہیں ہوتی جیساکہ مسٹر مودی تصورکر رہے ہیں۔ اس لیے دنیا ابھی بھی کشمیر پر پرانے انداز میں گفتگوکر رہی ہے۔
ستر سال سے مختلف کوششوں کے باوجود حکومتیں اس کو اپنے انداز میں حل کرنے کی کوششیں کرتی رہیں۔ مگر معاملہ ذرا بھی آگے نہ بڑھا اور وہیں اٹکا رہ گیا۔ عمران خان نے اپنے زاویہ نگاہ سے دوسری حکومتوں سے اس میں اپنے انداز میں آگے بڑھانے میں مدد مانگی ہے۔ ٹرمپ نے ابھی معاملات میں مداخلت کی بھی نہ تھی کہ مسٹر مودی نے بات کو کچھ اس انداز میں سمیٹا کہ اگر احتیاط سے کام نہ لیا گیا ہوتا تو خطے میں امن باقی نہ رہتا۔
عمران خان چاہتے ہیں کہ جنگ کے بغیر کشمیر کا معاملہ پرامن طور سے حل ہو جائے اور اردگرد کے ملکوں کو اتنا سمجھا دیا جائے کہ کہیں سے امن کو ٹھیس نہ لگے۔ اب تک کی کوششوں سے یہ نہیں لگتا کہ بھارت کے رہنما کسی کھلے راستے پر آکرگفتگو کریں۔ مسٹر مودی پاکستان کے کسی بھی لیڈر سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے ہی خول میں مزید بند ہوئے جا رہے ہیں۔ عالمی رہنماؤں سے بھی مسٹر مودی کے تعلقات نظر نہیں آتے، کیونکہ ان کے غیر ملکی دورے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کی تقریب حلف برداری میں بھی کوئی عالمی رہنما شریک نہیں ہوا۔ لہٰذا مودی تک پہنچنے کے تمام راستے خود مسٹر مودی نے بند کر دیے ہیں۔ ایسی صورت میں صرف براہ راست گفتگو کے سوا اورکوئی چارہ نہیں۔ لہٰذا اب پاکستان کو سکم، بھوٹان، سری لنکا، میانمار اور دیگر ممالک سے ہی کوئی راہ نکالنی ہو گی یا سارک ممالک میں سے کوئی ہمت کرے اور اس خاموشی کو توڑ دے، مگر فوری طور پر ایسی کوئی صورتحال نمایاں نہیں۔
حالیہ دنوں میں صرف ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے کشمیر کے معاملے میں دلچسپی دکھائی، مگر چونکہ ایران ایک پارٹی کی حیثیت سے سامنے آیا ہے اور حمایتی ہونے کا اندازہ ہے، اس لیے ایران کو شامل حال نہیں کہا جاسکتا۔
اب تو صرف (Sports Deplomacy) اسپورٹس ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت تک رسائی ممکن ہے۔ ابھی ہم نے عمران خان کی سیاسی سوچ کا جائزہ لیا جو پر امن ہے ان کی نگاہ میں امریکی رولنگ پارٹی اور اس کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کی یکساں اہمیت حاصل ہے تو اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ عمران خان ازخود ایسا قدم اٹھائیں جس سے نریندر مودی کی جواب دہی ممکن ہو۔