نظر بظاہر رواں ہفتے کا آغاز ہوتے ہی تحریک انصاف اور شہباز حکومت کے مابین مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔ حکومت نے ان مذاکرات کے لئے جو کمیٹی بنائی ہے اس میں اپنے حلیفوں کو بھی شامل کیا ہے۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی جو حکومتی اتحاد کا حصہ نہیں اس کے نمائندے بھی مذاکرات میں موجود ہوں گے۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہونے کے باوجود میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تحریک انصاف نے حکومتی کمیٹی کی ساخت پر سوال کیوں نہیں اٹھائے۔
اس کارضا مند ہوجانا مگر یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں گھبرائی ہوئی ہیں۔ نام نہاد "ہائی برڈ" نظام نے جو تیتر ہے نہ بٹیر انہیں ثانوی مقام پر دھکیل دیا ہے۔ انگریزی زبان کا Initiativeیا کسی بھی نوعیت کی پیش قدمی ان کے بس میں نہیں رہی۔ "مقتدرہ" کہلاتے ادارے نے "حکومتی بندوبست" تشکیل دینا شروع کردیا ہے۔ ایسے عالم میں "عوام کی خواہشات" کا ذکر منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
"ہائی برڈ" نظام ہمارے ہاں قیام پاکستان کے فوری بعد جڑیں پکڑنا شروع ہوگیا تھا۔ برطانیہ نے برصغیر پاک وہند کو قابو میں رکھنے کے لئے مقامی باشندوں کی بھرپور شمولیت کیساتھ فوج کا جو ادارہ قائم کیا تھا اس کا 30 فی صد حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ یاد رہے کہ مذکورہ حصے کو برطانوی دور میں عموماََ پی ایم کا نام دیا جاتا تھا جو Muslims Punjabi یعنی پنجابی مسلمانوں کا مخفف تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں موجود یہ انتہائی منظم ادارہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کے بعد کسی سیاستدان کے قابو میں نہ آسکا۔
ہمارے سیاستدان ویسے بھی انگریزوں کے "ٹوڈی" یا چمچے ہوا کرتے تھے۔ سرکار مائی باپ کی جی حضوری ان کی جبلت میں شامل تھی۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں وہ سرفضل حسین کے دور سے "یونینسٹ پارٹی" میں شامل رہے تھے۔ بالآخر 1946ء کے قریب انہیں "تازہ خبر" ملی کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہے۔ دھڑا دھڑ مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ پاکستان قائم ہوگیا تو مختلف گروہوں میں تقسیم ہوکر اقتدار واختیار کے طلب گار رہے۔ ملک چلانے کے لئے کسی آئین پر متفق ہی نہ ہوپائے۔
سیاستدانوں کی خود غرضی اور جاہ طلبی نے برطانوی ریاست کے تشکیل کردہ منظم ترین اداروں یعنی افسر شاہی اور عسکری قیادت کو طاقتور ترین بنانا شروع کردیا۔ بالآخر1958ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے مارشل لاء کے ذریعے اقتدار سنبھال لیا اور پاکستان کو اس کی "سرشت" کے مطابق آئین دے کر پورے دس برس تک بادشاہوں کی طرح راج کیا۔ اس برس تک پھیلا یہ راج مگر سیاسی ہی نہیں معاشی استحکام بھی فراہم نہ کرپایا۔ اس کے برعکس جنوبی کوریا جیسے ممالک کے آمروں نے جمہوری روایات کا گلا تو گھونٹا مگر اپنے ملک کو جاگیردارانہ نظام وثقافت سے آزادی دے کر جدید دور میں دھکیل دیا۔ اس دور میں پھیلائی تعلیم اور خوش حالی کی بدولت حال ہی میں جنوبی کوریا کے صدر کی جانب سے لگایا مارشل لاء چند گھنٹوں تک بھی برقرار نہ رہ پایا۔ اسے واپس لینا پڑا۔ جنوبی کوریا کے برعکس تھائی لینڈ میں "حکومتی بندوبست" اب بھی وہاں کا بادشاہ مقتدرہ کے ساتھ مل کر طے کرتا ہے۔
سچی بات مگر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے عوام نے نہایت استقامت سے اپنے حقوق کے حصول کی کوشش جاری رکھی۔ لاہور کے دیوانے شاعر حبیب جالب نے صرف ایک سطر کے ذریعے ایوب خان کے متعارف کردہ آئین کے پرخچے اڑادئے تھے۔ ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا" ان کی نظم کا ابتدائیہ تھا۔ ایوب خان کے زوال کے باوجود مگر ہم جمہوری اداروں کو منظم نہ کرپائے۔ جمہوریت کی اصل بنیاد سیاسی جماعتیں ہوا کرتی ہیں۔ وہ ہمارے ہاں فقط کرشمہ ساز افراد کے مداحین میں تبدیل ہوگئیں۔
پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کی ہوئی تو مسلم لیگ کا کنٹرول شریف خاندان نے سنبھال لیا۔ "موروثی سیاست" پر مبنی ان جماعتوں نے اقتدار میں باریاں لینا شروع کیں تو عمران خان ان کے کرشمہ ساز متبادل کی صورت ابھرے۔ اکتوبر2011ء میں وہ مینارِ پاکستان تلے جلسے کے ذریعے ہمارے نئے "دیدہ ور" کی صورت نمودار ہوئے۔ اگست 2018ء میں بالآخر ریاستی اداروں میں موجود "خیر خواہوں" کی مدد سے وزارت عظمیٰ کے دفتر پہنچ گئے اور اکتوبر2021ء تک قمرجاوید باجوہ کے ساتھ "سیم پیج" پر اقتدار واختیار سے لطف اٹھاتے رہے۔
اپریل 2022ء میں وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد مگر انہیں ہماری سیاست کی کلیدی تلخیوں کا ادراک ہونا شروع ہوا۔ "حقیقی آزادی" کے حصول کے لئے شہر شہر جانا شروع ہوگئے۔ "حقیقی آزادی" کی جو آگ انہوں نے لوگوں کے دلوں میں بھڑکائی اس نے بالآخر ہمیں 9مئی دیا۔ اب نو مئی کے واقعات میں ملوث چند افراد کو فوجی عدالتوں سے سنگین سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں۔ جنہیں سزائیں ملی ہیں وہ فیض احمد فیض کے مطابق "تاریک راہوں" میں مارے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں فکر مند ہونے کے بجائے تحریک انصاف اپنا ایک مطالبہ منوائے بغیر حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہوئی نظر آرہی ہے۔
سیاست کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں ہمیشہ مصر رہا ہوں کہ سیاست "حق وباطل" کا معرکہ نہیں ہوتی۔ اقتدار واختیار کا کھیل ہے اور بالآخر اس کا نتیجہ مذاکرات کی میز سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ بہتر یہی تھا کہ تحریک انصاف اپریل 2022ء میں اقتدار کھودینے کے بعد بھی پارلیمان میں موجود رہتے ہوئے اقتدار میں واپسی کی راہ بناتی۔ بانی تحریک انصاف مگر "انقلاب" لانے کو مچل گئے۔ انہوں نے حقیقی آزادی کے جوخواب دکھائے انہوں نے بے تحاشہ نوجوانوں کو "نظام کہنہ" سے ہر صورت نجات پانے کو اُکسایا ہے۔ ان کے سینے جوش وجذبے سے بپھرے ہوئے ہیں۔ وہ مگر ایسی حکمت عملی تلاش کرنہیں پائے جو لوگوں کو امید دلائے کہ حکومت جلد ہی "رضا کارانہ" طورپر نئے انتخابات کو آمادہ ہوجائے گی اور وہ انتخابات صاف اور شفاف بھی ہوں گے جن کے نتیجے میں تحریک انصاف دوبارہ برسراقتدار آجائے گی۔ مجھے خدشہ ہے کہ پیر کے روز شروع ہوئے مذاکرات تحریک انصاف کے نوجوان مداحین کے دلوں میں مزید مایوسی پھیلائیں گے۔