فلسطین کی تاریخ میں ایک اہم ترین دن گیارہ دسمبر انیس سو سترہ بھی ہے جب ترک عثمانی فوج کی پسپائی کے بعد یروشلم (بیت المقدس) کے امرا نے فاتح برطانوی فوج کو شہر کی چابی پیش کی اور برطانوی جنرل ایڈمنڈ ایلن بی تعظیماً گھوڑے سے اتر کر پاپیادہ شہر میں داخل ہوا۔ صلیبی جنگوں کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی یورپی فوج یروشلم میں داخل ہوئی۔ آج بھی مقبوضہ مغربی کنارے کو ہاشمی سلطنت سے الگ کرنے والے دریائے اردن پر موجود ایلن بی برج اس واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔
سقوطِ یروشلم سے ایک ماہ نو دن پہلے دو نومبر کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے شاہی سرکار کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے یہودی بینکر سر والٹر روتھ چائلڈ کو وہ تاریخی خط بھیجا جس میں فلسطین میں ایک یہودی قومی وطن کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔
انیس سو بائیس میں لیگ آف نیشنز نے قابض برطانیہ کو فلسطین کا باضابطہ متولی بنا دیا۔ چھیالیس برس بعد اقوامِ متحدہ کی حمائیت کے سائے میں اسرائیل وجود میں آ گیا۔ (یہ وہی اقوامِ متحدہ ہے جسے آج نیتن یاہو حکومت یہود دشمنوں کا چھتہ کہہ رہی ہے اور امن فوج اور امدادی اداروں پر حملے کر رہی ہے)۔
نئی قابض برطانوی انتظامیہ نے عثمانیوں کا وضع کردہ نظامِ تعلیم بھی ہاتھ میں لے لیا۔ مگر یہودی آبادکاروں کا تعلیمی نظام سرکاری کنٹرول سے آزاد رہا۔ عثمانیوں کی طرح برطانوی انتظامیہ نے بھی بنیادی تعلیم کو لازمی قرار نہیں دیا۔ چنانچہ انیس سو اڑتالیس تک سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے صرف بائیس فیصد بچے داخل تھے۔
البتہ برطانوی دور میں یروشلم میں پہلا ہائی اسکول ضرور قائم ہوا۔ تاکہ سامراجی انتظامیہ کی نچلی ملازمتوں کے لیے مقامی بابو دستیاب ہو سکیں۔ اگرچہ ان اسکولوں کے طلبا اور اساتذہ فلسطینی تھے مگر تعلیمی پالیسی اور نصاب کی تیاری برطانوی اہلکاروں کے ہاتھ میں رہی۔ جدید تاریخ کا مضمون نصاب سے خارج تھا۔ جب کہ یورپ سے آنے والے یہودی اپنے اسکولوں میں اپنا نصاب پڑھانے میں آزاد تھے۔ حالانکہ تب فلسطین میں ان کی آبادی دس فیصد سے بھی کم تھی۔
برطانوی انتظامیہ فلسطینیوں میں قوم پرستی اور خود شناسی کے پنپتے جراثیموں کے بارے میں اتنی حساس تھی کہ عرب ٹیچرز ٹریننگ کالج یروشلم کے ایک ماہرِ تعلیم درویش مقدادی سے اس لیے جبراً استعفی لے لیا گیا کہ انھوں نے کالج میں قائم اسکاؤٹس گروپ کا نام خالد بن ولید عرب اسکاؤٹس کیوں رکھا۔
برطانوی محکمہ تعلیم کا اصرار تھا کہ یہ نام بدل کے اسکاؤٹس تحریک کے برطانوی بانی کے نام پر لارڈ بیڈن پاول اسکاؤٹس رکھا جائے۔ جب کہ صیہونی تعلیمی مراکز میں اسکاؤٹس تحریک کے اپنے نعرے اور اپنا جھنڈا تھا۔
مئی انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کی تشکیل کے دو برس میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کی دربدری کے بعد صرف ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی اسرائیلی حدود میں رہ گئے۔ ان میں سے اکثر بٹے ہوئے خاندان تھے جن کے آدھے رشتے دار کوچ کر گئے تھے۔ ان کا نظامِ تعلیم بھی تتر بتر ہوگیا۔ اسرائیلی حدود میں واقع عرب اسکولوں پر صیہونی حکومت کا کنٹرول ہوگیا۔ مغربی کنارے، اردن، شام اور لبنان کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی انرا نے ابتدائی تعلیم کا انتظام کیا۔ گویا فلسطینیوں کے لیے تعلیم چوں چوں کا مربہ بن گئی۔
سونے پے سہاگہ یہ ہوا کہ جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی تعلیم پر اسرائیلی فوجی مارشل لا نے پنجے گاڑ لیے۔ جب کہ مقبوضہ علاقوں کی یہودی بستیوں پر اسرائیل کا سول قانون لاگو ہے۔ جو فلسطینی اسرائیلی حدود میں دربدر ہوئے۔ انھیں آبائی گھروں اور زمینوں پر واپسی کا حق دینے کے بجائے انھیں پریزنٹ ایبسینٹی (حاضر غیر حاضر) قرار دے کر ان کی املاک متروکہ قرار دے کر ضبط کر لی گئیں۔
" حاضر غیر حاضر " کیٹگری سوائے اسرائیلی قانون کے دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ یوں ترانوے فیصد فلسطینی املاک اور اراضی متروکہ قرار دے کر اسے بیرون سے آنے والے یہودیوں اور اداروں میں بانٹ دیا گیا۔ مگر ٹیکس ریکارڈ میں ان فلسطینیوں کو مساوی اسرائیلی شہری ہی تسلیم کیا گیا۔ تاہم ملازمتوں، تعلیم، سیاسی نمایندگی اور آمدنی میں امتیازی سلوک کے سبب وہ اسرائیل کے یہودی شہریوں سے سماجی و معاشی لحاظ سے کہیں پیچھے رکھے گئے۔
اسرائیل کے سرکاری یا نجی عرب اسکولوں کے بچوں کو صرف وہ تاریخ و جغرافیہ پڑھایا جاتا ہے جو صیہونی ماہرینِ تعلیم نے مرتب کیا۔ بہت سے عرب گاؤں صفحہِ ہستی اور نصابی تاریخ سے مٹ گئے۔ باقی ماندہ قصبوں اور شہروں کے نام عبرانی کر دیے گئے۔ انیس سو اڑتالیس سے پہلے بھی فلسطین میں کوئی مقامی ثقافت اور تہذیب تھی؟ اس کا پتہ کم ازکم تعلیمی نصاب سے نہیں چل سکتا۔ حتی کہ لفظ فلسطین یا فلسطینی بھی نصاب میں شامل نہیں۔ صرف عرب اور بدو کی اصطلاحات باقی ہیں۔
انیس سو چورانوے میں فلسطینی اتھارٹی کی تشکیل سے پہلے مقبوضہ علاقوں کا تعلیمی بجٹ اسرائیل کی فوجی انتظامیہ کنٹرول کرتی تھی لہٰذا فلسطینی اسکولوں کو جان بوجھ کر بنیادی اور تدریسی سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔
امن و امان کے نام پر کئی کئی ماہ تک تعلیمی ادارے بند کر دینا، طلبا و اساتذہ کی گرفتاریاں، مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور پولیس تشدد مقبوضہ فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کا ایک نارمل پہلو ہے۔ انیس سو ستاسی اٹھاسی کے پہلے انتفادہ کے دوران نوآبادیاتی فوجی انتظامیہ نے سترہ ماہ تک فلسطینی تعلیمی ادارے بند رکھے۔ اس اقدام سے تین لاکھ دس ہزار طلبا متاثر ہوئے۔
دوسرے انتفادہ (سن دو ہزار تا پانچ) میں لگ بھگ بیالیس سو فلسطینی شہید ہوئے۔ ان میں نو سو بچے بھی شامل تھے۔ شہدا میں بتیس اساتذہ اور چون زخمی اساتذہ بھی شامل ہیں۔ جو بچے شہید ہوئے ان میں پانچ سو چھہتر اسکولی طلبا اور دو سو یونیورسٹی طلبا تھے۔ لگ بھگ پانچ ہزار طلبا زخمی ہوئے۔ ڈیڑھ ہزار طلبا اور ایک سو چھہتر اساتذہ گرفتار ہوئے۔ سیکڑوں اسکول مستقل بند کر دیے گئے۔
انیس سو چورانوے میں اوسلو سمجھوتے (انیس سو ترانوے) کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تو اگلے برس فلسطینی محکمہ تعلیم نے یونیسکو کی مالی مدد سے نیا اسکولی نصاب تشکیل دینا شروع کیا اور سن دو ہزار سے اسے مرحلہ وار متعارف کروایا گیا۔
نصاب میں انتہاپسندی کے بجائے فلسطینی تاریخ و ثقافت، کثیر الطبقاتی و مذہبی سماج میں مساوات، ہم آہنگی اور برداشت پر مبنی اخلاقی اقدار اور بچوں میں ناقدانہ سوچ کے فروغ کی تربیت پر بھی زور دیا گیا۔
فلسطینی اتھارٹی کا بیشتر بجٹ بیرونی دنیا بالخصوص یورپی یونین، چند خلیجی ریاستوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے آتا ہے۔ اٹلی اور عالمی بینک کی جانب سے نئے فلسطینی نصاب میں "یہود دشمنی " کی بو سونگھی گئی اور انھوں نے تعلیمی منصوبوں کے لیے اپنی امداد معطل کر دی۔
اس کے برعکس مقبوضہ علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کے اسکولوں کا معیار اور بجٹ امریکی و یورپی تعلیم گاہوں کے ہم پلہ ہے۔ باہر سے اساتذہ آ کر آبادکاروں کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ انھیں ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکی و یورپی اسکولوں میں بھیجا جاتا ہے اور بہترین تعلیمی معیار کے سبب یہودی بچوں کو اچھے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ با آسانی مل جاتا ہے۔
بذریعہ تعلیم مزاحمت کے عمل پر مزید روشنی اگلے مضمون میں ڈالی جائے گی۔