Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Long March, Ehtijaj Aur Afwahen

Long March, Ehtijaj Aur Afwahen

لانگ مارچ تو ایک ضرب المثل بن گئی ہے، جس کے بانی کامریڈ ماؤزے تنگ تھے۔ جنھوں نے حکومت بدلنے کے لیے ہزاروں میل کا مارچ کیا اور چین کی قسمت بدل ڈالی، جس کو علامہ نے ہمالا کے چشمے ابلنے سے تشبیہ دی ہے۔

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

ہمالا کے چشمے ابلنے لگے

مگر اب چھوٹے بڑے سفر کو سیاسی حضرات لانگ مارچ سے ہی تشبیہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے جو مارچ ماضی میں اسلام آباد تک کیا، اس کے بعد لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پشاور سے اسلام آباد کا سفر طے کر کے کچھ دن کنٹینروں پہ بیٹھ کے حکومت بدلی جا سکتی ہے اور نئے انتخابات جنم لے سکتے ہیں۔

عمران خان تو اپنی منزل کا نشانہ لگا کر تسلسل سے سفر کرتے رہے۔ مگر ان کے دوسرے ساتھی نے یہ سفر چھوڑ کر تبلیغ اور قلم اور کاغذ کا دامن تھام لیا۔ اس لیے وہ حکمرانی کی منزل سے دور ہو گئے، مگر عمران خان نے پاکستان کا وزیر اعظم بن کر یہاں کے پرانے لیڈروں کو وہ منظر دکھایا جس کا تصور بھی ان کے ذہن میں نہ تھا۔ انھوں نے انصاف اور ایمانداری کا ترازو تھام کر پاکستان کے لیڈروں کی جو تصویر عوام کے سامنے پیش کی، اس سے ماضی کے تمام لیڈروں کی شبیہ سیاہ تر ہوگئی اور عوام یہ سمجھنے لگے کہ آج وہ جس معاشی دلدل میں دھنسے جا رہے ہیں، اس کا اہتمام ان کے ہی چنے ہوئے لیڈران نے کیا ہے۔ ان کے خزانے پر آئی ایم ایف کے نگرانوں کا پہرہ ہے۔ عمران خان اسمبلی میں تعداد کے لحاظ سے معمولی اکثریت رکھتے ہیں۔ پھر بھی کوئی مخالف لیڈر قومی اسمبلی میں ووٹ آف نو کانفیڈنس (تحریک عدم اعتماد) نہ لاسکا۔

مولانا فضل الرحمن نے اسمبلی کی جنگ کو لاحاصل پایا کیونکہ وہ سینیٹ کا تماشا دیکھ چکے تھے۔ لہٰذا انھوں نے سوچا ہو گا کہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو لاکھوں کارکن اپنی صفوں میں رکھتی ہو۔ عمران خان کے جو کارکن تھے وہ تو مڈل اور اپر مڈل کلاس کے مرد و زن تھے۔ وہ دھرنے میں اس طرح آتے تھے گویا یہ کوئی پارٹ ٹائم مشغلہ ہے۔

لیکن ان کو عمران خان سے اتنی رغبت کا اندازہ نہ تھا لہٰذا انھوں نے اپنی طاقت پر بھر پور انحصار کیا اور سوچا کہ ان کے ماننے والے ژوب سے لے کر لنڈی کوتل تک ہیں اور سکھر میں بھی ان کا ایک بڑا جماؤ ہے تو وہ آسانی سے عمران خان کی حکومت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیں گے۔ کیونکہ وہ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اسلام آباد کی مکمل طور پر ناکہ بندی کر دی جائے گی۔ تمام حکومتی کام ٹھپ ہو کر رہ جائیں گے، مولانا صاحب جو ایک مقتدر عالم کے صاحبزادے بھی ہیں، اپنی تدبیر اور توانائی کے ذریعے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ کیونکہ وہ یہ قیاس کر رہے تھے کہ انھیں فری ہینڈ ملا ہوا ہے۔

انھی دنوں آئی ایس پی آر کی جانب سے جو اعلامیہ اخبارات میں آیا اس نے حکومت وقت کی قانونی طاقت کا اصرار کیا۔ جس سے عوام میں یہ پہلو نمایاں ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک عمران خان کے ساتھ ہے، لیکن ملک میں بیٹھے ہوئے سیاسی یتیم خانوں سے مختلف آوازیں آنے لگیں۔ میری مراد سیاسی یتیم خانوں سے یہ ہے کہ جس میں ساٹھ اور ستر سال کے وہ کارکن جو کبھی سیاسی تحریکوں کا حصہ تھے اب محض چائے اور کافی پر بیٹھ کر تجزیہ کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ زہر اگلنا شروع کیا کہ حکومت کا ایک حصہ عمران خان کے سیاسی موقف کی لگتا ہے تائید نہیں کر رہا۔ جبھی تو مولانا صاحب کے کارکن بڑی آزادی سے اور بے خوف ہوکر اجتماع میں شرکت کر رہے ہیں۔

بقول ان لوگوں کے بجائے یہ کارکن حکومت کو محدود کرتے اور ان کے راستے مسدود کرتے، یہ تو عوام کو تنگ کر رہے ہیں۔ ان کی دو دن کی منزل کو چار دن میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کی ہر طرح سے حمایت کر رہی ہے۔ آخر اس فری ہینڈ کی وجہ سے افواہ سازی کے کارخانے نے جنم لیا۔ میں اس وقت اس بات کی مزید وضاحت کر دوں کہ افواہیں عام طور پر ایسے موقع پر اور ان جگہوں پر جنم لیتی ہیں جہاں پریس پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور حالات اور واقعات ان کی نفی کرتے ہیں۔

اگر ہم یہ سوچیں کہ مولانا فضل الرحمن نے اس اجتماع میں کیا پایا تو عام آدمی کی نظر میں نقصان ہی نقصان اٹھایا، لیکن ہرگز ایسا نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے لوگوں کو یہ بتا دیا کہ اگر وہ کچھ لوگوں کو تصادم کی راہ پر لگاتے اور کشت و خون کے نظارے خدانخواستہ دیکھے جاتے تو پھر جیت کس کی ہوتی۔

یہ تو کہیے کہ یہ پاک آرمی کا دبدبہ تھا جو وقت خیریت سے گزر گیا۔ ایک اعتبار سے مولانا نے گزشتہ دھرنوں کے مقابلے میں آزادی مارچ کو اثر و رسوخ کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ثابت کر دیا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ابتدائی طور پر جب یہ آزادی مارچ شروع کیا گیا تو اس کی سرخیاں وزیر اعظم کے بیانات سے بھی زیادہ نمایاں تھیں اور صفحہ اول پر مولانا کے افکار نمایاں تھے اور اس بات کے خدشات بھی تھے کہ یہ آزادی مارچ تشدد کی طرف جا سکتا ہے ایسا بالکل نہیں ہو گا کہ مولانا اس آزادی مارچ کے نتائج سے ہمیشہ کے لیے جد وجہد سے دور ہو جائیں۔ مولانا فضل الرحمٰن چونکہ دائیں بازو کے ایسے نمایندے ہیں کہ جن کے والد تشدد پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

مولانا صاحب نے پاکستان کی وسیع و عریض سرزمین پر کارکنوں کی جو لکیر کھینچی ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بات کو تو خاص طور سے نمایاں ہی رکھا جائے گا کہ انھوں نے بار بار یہ کہا تھا کہ پہلے وزیر اعظم استعفیٰ دیں پھر حکومت سے بات ہو گی۔ یہ باتیں کسی مجذوب کی بڑ نہیں بلکہ ایک تنظیم کے قائد کی گفتگو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بعض انہونی قوتوں کی توقع رکھتے تھے جو سیاسی صورتحال میں پوری نہ ہوئیں۔

دوم اس بات کا یہ بھی امکان تھا کہ وہ وزیر اعظم کو دھمکیاں دے کر مستعفیٰ کرنا چاہتے تھے۔ اگر آپ مولانا صاحب کی سیاسی زندگی کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انھوں نے کس سیاسی تحریک میں نمایاں خدمات انجام نہیں دیں اور نہ ہی کسی عوامی مطالبے کا تذکرہ کیا۔ میرے لیے یہ بھی تعجب خیز بات ہے کہ بحیثیت لیڈر انھوں نے اپنی تحریک میں کسی عوامی مسئلے کو جزو نہ بنایا اور نہ ہی قوم پرستی اور عوام دوستی کا ثبوت دیا۔ یہ سیاسی پارٹیوں کے ان لیڈروں کی حمایت کا انتظار کرتے رہے جو اپنے ہی علاقے سے چند ہزار کارکنوں کو بھی نہیں نکال سکتے۔

موجودہ ملکی حالات ایسے ہیں کہ کوئی بھی عوامی رہنما جس نے عوام کے لیے کچھ کام کیا ہو، آسانی سے بڑا مظاہرہ کر سکتا ہے جس میں بجلی، گیس کا روز افزوں اضافہ، اناج کے بڑھتے ہوئے نرخ، پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل اور تعلیمی میدان میں متوسط طبقے کی ناکہ بندی ایسے مطالبات ہیں جو عوام پر قہر نازل کر رہے ہیں۔ مگر عمران خان نے اپنی ذات کے سہارے بہت سے وعدوں کو ایفا کرنے کا عوام کو یقین دلایا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بڑی تحریک کے لیے فی الحال کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ایسے موقع پر حکومت کو محض آئی ایم ایف کی طرف نہیں بلکہ عوام کی سمت بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے اور جن ممالک سے قرضے لیے گئے ہیں ان کو ملک کی سیاسی وجوہات کا اندازہ دلانے کی ضرورت ہے ورنہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ ملک کسی بدامنی کا شکار ہو جائے یہاں اس بات کو ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ افواہ سازی کے کارخانے تو اسی وقت کامیاب ہوتے ہیں جب حکمران طبقات سے متضاد باتیں سامنے آتی ہیں مثلاً ابھی تو احتساب کی باتیں ہو رہی تھیں، پھر اچانک اخبارات کی شہ سرخی میں یہ خبر نمایاں ہو گئی کہ اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے یکطرفہ احتساب کا تاثر دور ہو گا۔ اس کا ہر شخص الگ الگ مطلب نکالے گا اور افواہیں گرم ہوں گی۔