ایک فرمان جس کو عرف عام میں آرڈیننس کہا جاتا ہے۔ آج سے تقریباً چالیس سال قبل صدر ضیا الحق نے جاری کیا تھا جس کی رو سے اسٹوڈنٹس یونینوں کو تحلیل کر دیا گیا۔ اس فرمان کی وجہ سے طلبا میں تعلیم اور مسابقت کا مقابلہ تو ختم ہوا ہی مگر ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا کہ نئی سیاسی قیادت کا رونما ہونا بھی ختم ہوگیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی پارٹیاں پڑھے لکھے نوجوانوں سے محروم ہوگئیں اور وہ روایتی لیڈر جنم لینے لگے جو مال و اسباب کے مالک تھے اور تعلیمی لحاظ سے بے ثمر۔ اس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ بعض چانسلرز کے عہدہ کے لیے یہ مصرع لکھنا پڑتا ہے کہ:
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ سوچ کر جمہوری حکومتیں اپنی مشکل کو حل کرلیتی ہیں اور اسناد کی قید سے مبرا ہوجاتی ہیں اور بھی نقصانات صدر ضیا کے آرڈیننس سے ہوئے، جس کا تذکرہ حالیہ موضوع نہیں۔ فی الحال دو ہفتہ قبل اس صدارتی آرڈیننس پرگفتگو مقصود ہے جو موجودہ حکومت نے جاری کیا۔ موجودہ حکومت کے مثبت پہلوؤں، کارکردگی اور ایمانداری کو میں کئی کالموں میں اخبارکی زینت بنا چکا ہوں، مگر بقول علامہ اقبال کے:
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
موجودہ حکومت نے بہاروں کے موسم کی طرح فضا میں خوشیوں کے کئی رنگ بکھیرے ہیں۔ جن میں کشمیری عوام کے حقوق اورکرپشن کی ناکہ بندی۔ مگر موجودہ حکومت کو آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کرنے کے بجائے اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کرنا زیادہ بہتر ہوتا تاکہ مثبت اور منفی پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔
خواہ اس کا انجام پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ( PMDC) کی تحلیل ہی کیوں نہ ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا جاتا تو حکومت کی فتح اسی طریقے سے ہوتی جس طرح سینیٹ کے چیئرمین کی فتح ہوئی۔ مگر اچانک PMDC کی تحلیل نے ایک ایسا خلا طبی پوسٹ گریجویٹ تعلیم میں پیدا کردیا جس سے اندرون ملک اور بیرون ملک ڈاکٹروں کو شش وپنج میں ڈال دیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کے ڈاکٹر جو امریکا، کینیڈا اور برطانیہ گئے ہوئے ہیں، ڈاکٹروں کو اچانک اپنے شعبے سے دستبردار ہونے کے قریب تر کر دیا۔ واضح رہے کہ جب بھی بیرون ملک وزیر اعظم گئے خصوصاً امریکا میں تو پاکستانی ڈاکٹروں نے سب سے زیادہ ان کی پذیرائی کی اور ان کے پروگراموں کو تکمیل تک پہنچایا۔
اب جب کہ خبر گرم ہے کہ بجلی کے نرخ پانچ روپے فی یونٹ تک بڑھ جانے کے امکانات ہیں تو پاکستانی فیکٹریاں اپنی مصنوعات کو بیرون ملک تو دورکی بات اپنے ملک کی مقامی آبادی کی ڈیمانڈ کو بھی پورا نہیں کر سکیں گی۔ کیونکہ فیول کی قیمتوں کا اس قدر اضافہ برداشت کرنا ان کے قوت عمل سے باہر ہے جب کہ بیرون ملک گئے ہوئے پاکستانی ڈاکٹر اور تعلیم یافتہ ہنرمند جو زر مبادلہ اپنے ملک روانہ کرتے ہیں وہ بھی پی ایم ڈی سی کے تحلیلی عمل سے متاثر ہوں گے۔ جو ڈاکٹر حضرات بیرون ملک گئے ہوئے ہیں اور اپنی اسناد کی تصدیق چاہتے ہیں اب کون سا ادارہ ان کی اسناد کی تصدیق کرے گا۔
یہ پی ایم ڈی سی ہی تھا جو نہ صرف ڈاکٹروں کی اسناد کارکردگی اور ان کے پریکٹس کے عمل کا لائسنس دیتا تھا۔ پی ایم ڈی سی کا کام محض اسناد کی تصدیق نہ تھا بلکہ طب کے میدان میں پاکستان کے سربلند طبی معیار کو برقرار رکھنا اور اندرون ملک تمام میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی کارکردگی کا جائزہ طلبا کی ضروریات اور فیسوں کا تعین، اساتذہ اور طلبا کی تعداد کا جائزہ لینا اور یہ معیار قائم کرنا کہ کتنے طلبا پرکتنے اساتذہ درکار ہیں۔ اس کا تعین اس کے علاوہ طلبا کے کورسز کا جائزہ اور موجودہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے ماہانہ میڈیکل جرنلز کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے پی ایم ڈی سی کی کاوشیں قابل قدر تھیں۔ عام طور پر پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالج ان معروف ڈاکٹروں نے تعمیر کیے ہیں جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں طبی میدان میں طلبا کی بہبود کے لیے کوشاں تھے۔
میڈیکل جرنل ہر کالج کی علمی کارکردگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ عام طور پر وہاں کے اساتذہ کی اپنی کاوشوں کا مظہر ہوتا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا تھا کہ اساتذہ کتنی لگن سے طلبا کو پڑھا رہے ہیں۔ اور خود ان کی علمی اور فنی قابلیت کا کیا معیار ہے۔ اس طریقے سے ہر تعلیمی ادارہ پی ایم ڈی سی کی نگرانی میں تھا۔ پی ایم ڈی سی نے نہ صرف تعلیمی میدان پر نظر رکھی بلکہ جن جگہوں پر یہ ادارے قائم ہیں کالجوں کا رقبہ، لیبارٹریز، جدید ٹیکنیکل سپورٹ اور اساتذہ کی تعداد کا بھی جائزہ لیا جاتا رہا۔ ظاہر ہے ایسی کارکردگی عام تعلیم یافتہ لوگوں کے زیر اثر ممکن نہیں۔
پی ایم ڈی سی کا اپنا ایک تنظیمی ڈھانچہ تھا جس میں باقاعدگی سے مختلف کالجوں کے چیف ایگزیکٹیو نمایندگی دیتے تھے اور ان کی میٹنگیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے ان کے اخراجات کیا ہوں گے۔ مجھے اس کا قطعاً کوئی علم نہیں مگر اس کے فوائد تو بے تحاشا ہیں۔
جس کی وجہ سے پاکستان میڈیکل ورلڈ کا ایک ستون ہے اور یہاں کے ڈاکٹر بھارت کے ڈاکٹروں سے کسی درجہ کم نہیں۔ لیکن پاکستان میں جس تیزی سے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل تعلیم کی نمو ہونی چاہیے وہ یقینا اتنی سرعت سے نہیں ہو رہی۔ اس میں پی ایم ڈی سی کی کیا ہدایات ہیں یا اعلیٰ اساتذہ کیا سوچتے ہیں کہ ایف سی پی ایس کے طلبا پر اس قدر قدغن کیونکر ہے کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد چار سال میں ایف سی پی ایس کے پارٹ ون اور پارٹ ٹو ہوتے ہیں جب کہ اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ FCPS کا پارٹ ون بھی اکثر طلبا دس دس سال یا آٹھ آٹھ سال تک کلیئر نہیں کر پاتے کیونکہ تعلیمی نظام کا یہ نقص ہے کہ کسی خاص منصوبے کے تحت ایف سی پی ایس پارٹ ون اور پارٹ ٹو کے نتائج عام طور پر ایک فیصد یا بہت بہتر ہوا تو کسی سال دو سے تین فیصد کامیاب ہوتے ہیں۔
بعض طلبا سے میری بات ہوئی کہ ایسا کیونکر ہے۔ تو وہ اعلیٰ میڈیکل تعلیم کے نگرانوں سے نہ صرف دل برداشتہ بلکہ ایک مخصوص قدیم اور رکاوٹ پیدا کرنے والے طریقہ اختیارکرتے ہیں تاکہ نئے طلبا کی تعداد کم سے کم رہے، جس کی وجہ سے طلبا میں مایوسی کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ وہی نوجوان طلبا ہیں جنھوں نے آج تک گورنمنٹ کے میڈیکل کالجوں کو پرائیویٹ ہونے سے روک رکھا ہے اور سینئر اساتذہ کا معیار ان کی قربانیوں کے نتیجے میں ہے۔ اس کا ایک ثبوت پشاور میں لیڈی ریڈنگ اسپتال ہے۔ یہ ایک واضح منفی رجحان ہے جو ایف سی پی ایس کے طلبا کے لیے روا رکھا گیا ہے۔
لہٰذا اس رجحان کو ختم ہونا چاہیے۔ بعض ایسے سال بھی گزرے ہیں جب ایک بھی طالب علم کو پاس نہیں کیا گیا۔ ایسی پالیسی سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ پالیسی محض معیار برقرار رکھنے کے لیے نہیں بلکہ چند لوگوں کی خوشیوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ اگر یہ صورتحال مزید جاری رکھی گئی تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے صرف بیرون ملک ہی طلبا کو جانا ہوگا۔ ایسی صورت میں صرف وہ طلبا بیرون ملک تعلیم حاصل کرسکیں گے جن کے والدین پونڈ، اسٹرلنگ اور ڈالر کا وزن برداشت کرسکیں گے یا نوجوان طلبا بیرون ملک جاکر پارٹ ٹائم نوکریاں اور تعلیم جاری رکھنے کے لیے جان کی بازی لگا دیں۔
اگر موجودہ صورتحال میں ازسر نو پی ایم ڈی سی بحال کی جاتی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ایف سی پی ایس کے مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایف سی پی ایس کی ازسر نو پالیسی ترتیب دے۔ جس میں تعلیمی معیار کو ضرب بھی نہ لگے اور نوجوان اساتذہ میڈیکل خلاء کو پرکرکے عوام کو آسانیاں بہم پہنچائیں۔ موجودہ پالیسی سے کنسلٹنٹ ڈاکٹروں کی شدید کمی پیدا ہوگئی ہے اور پرائیویٹ مریضوں کو رات کے گیارہ بجے تک بھی اسپتالوں میں ٹھہرنا پڑتا ہے۔ اس عمل سے مفاد عامہ کا کوئی تعلق نہیں۔
موجودہ حکومت چونکہ عوام کی مشکلات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اس لیے پرائیویٹ کالجوں کے مالکان پرامید ہیں کہ ان کی کوششیں بارآور ثابت ہوں گی۔ اور پی ایم ڈی سی پوری آب و تاب سے فعال ہوسکے گا۔ البتہ جو تبدیلیاں ضروری ہیں وہ حکومت اور میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے مالکان مل بیٹھ کر طے کرسکتے ہیں۔