Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Students Union Par Bandish Kab Tak?

Students Union Par Bandish Kab Tak?

تقریباً پینتیس سال سے زیادہ وقت گزرگیا کہ اسٹوڈنٹس یونینز پر پابندی برقرار ہے۔ حالانکہ جمہوریت کے نام پر نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں آتی جاتی رہیں، مگر مرحوم ضیا الحق کی خلاف قانون قرار دی گئی اسٹوڈنٹس یونین آج بھی پا بہ جولاں ہے۔ حالانکہ تمام جمہوری ملکوں کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ وہاں طلبا یونینوں پر پابندی نہیں۔ یہاں تک کہ ہمسایہ ملک بھارت، جہاں مودی کی کٹر پنتھی جنونی حکومت ہے وہاں بھی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں اسٹوڈنٹس یونین بحال ہے۔ گوکہ وہاں دس برسوں سے جو بھی یونین آتی ہے وہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کو اجاگر کرتی ہے اور ان کی مذمت بھی۔

پاکستان میں سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی یہ کہا کرتے تھے کہ انھوں نے سینیٹ میں اپنی درخواست بھیج دی ہے کہ طلبا یونینوں سے پابندی کی شق ہٹائی جائے اور نجی محفلوں میں غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے حاصل بزنجو بھی ایسی ہی تمناؤں کا اظہار کرتے تھے جو اس مرتبہ بھی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن بڑے پرجوش انداز میں لڑ چکے ہیں۔ حالانکہ ان کا لگاؤ نواز شریف سے ہے مگر اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ کیونکہ جمہوری پارٹیاں یہ نہیں چاہتیں کہ عوام میں نئے لیڈر متعارف ہوں جو پیسے کے بجائے اپنی اہلیت کی بنیاد پر عوام میں مقبولیت رکھتے ہوں، مگر اب ارتکاز دولت کی لہر چلی ہوئی ہے۔

جس سے لیڈران استفادہ کر رہے ہیں اور آج بھی مختلف ذرایع سے ملک کی دولت غیر ممالک میں بھیجی جا رہی ہے گوکہ موجودہ حکومت نے مختلف قسم کے پہرے بٹھا رکھے ہیں پھر بھی ہیرا پھیری کے نت نئے ذرایع نام نہاد لیڈر نکالنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور عوام کی محرومیوں سے ان کو کوئی غرض نہیں۔ ایک اور وجہ غالباً اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی پر غور نہ کرنے کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ زیادہ تر لیڈران ملک میں ایسا نظام حکومت چاہتے ہیں جو سرمایہ داری نظام تو ہو ہی مگر اس میں معاشی مسئلوں پر کوئی باز پرس نہ کی جائے اور وہ اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس پر ان کا بسیرا ہے۔ وہ ایسی خارجہ پالیسی چاہتے ہیں جس کا جھکاؤ صرف نیٹو ممالک کی سمت ہو۔

ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا رہنما ان کے درمیان آجائے جیسے کہ طیب اردوان، اسٹوڈنٹس یونین پر قدغن کا اثر تو پورے ملک پر پڑا۔ لیکن سندھ اور خصوصاً کراچی پر اس کے اثرات بے حد منفی مرتب ہوئے۔ مقامی حکومت نے پنجاب اور کے پی کے طرز پر سرکاری اسکولوں کو قائم نہ رکھا۔

کراچی اور حیدرآباد میں یہ اسکول عام طور پر غائب ہوگئے جس کے اثرات یہ پڑے کہ معمولی پڑھے لکھے گھروں کی اولاد تعلیم سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ گوکہ ان کے والدین میٹرک یا انٹر کیے ہوئے ہیں لیکن معاشی حالات نے ان کی کمر توڑ دی اور سرکاری اسکولوں میں بچوں کا داخلہ اگر ہو بھی جائے تو شہر میں اتنے کم ہیں کہ ان تک پہنچنے کے لیے پرائیویٹ گاڑیوں کی ضرورت ہے۔

جس کے لیے پھر تقریباً پانچ ہزار درکار ہیں۔ جو ان والدین کی استطاعت سے باہر ہے مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ملازمتوں پر برقرار ہیں اور باقاعدگی سے اپنی اجرت وصول کر رہے ہیں بڑے شہروں کا یہ حال ہے تو گاؤں گوٹھ کے اسکولوں میں تو وڈیروں نے اپنے پالتو جانور باندھ رکھے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شہر کراچی اور حیدرآباد کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچانے میں ان حکومتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو مہاجروں کے نام پر اپنا لوہا منواتے رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے سندھ وہ واحد لسانی صوبہ ہے جہاں تعلیم محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔

حالانکہ یہاں پر حکومتی سطح پر ہر شعبے میں وزرا موجود ہیں، مگر سندھ میں سب سے زیادہ تعلیم دشمن سرگرمیاں عروج پر ہیں، جب کہ ملک کے مقتدر تعلیمی ادارے بھی سندھ میں موجود ہیں مگر صوبہ سندھ میں تعلیمی عمل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مجروح کیا جا رہا ہے جس کے اثرات پورے ملک میں یقینا پڑیں گے کیونکہ صوبہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جو ملک کی معاشی کفالت کر رہا ہے اگر اس صورتحال کو مرکزی حکومت نے نظرانداز کر دیا تو خود وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی مگر صوبہ سندھ کے مشیروں اور وزیروں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی ذمے داریاں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں اور صوبہ سندھ کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم نہ ہونا چاہیے تھا۔

اس لیے ان کوتاہیوں پر قابو پانے کے لیے اسٹوڈنٹس یونین عمل درآمد کرتی تھی۔ پہلے انٹر کالجیٹ باڈی کا چیئرمین مقامی حکومت کو متنبہ کرتا تھا اور اگر اس نے سنی ان سنی کی تو یہ روداد مرکزی حکومت تک جاتی تھی اور اگر مرکزی حکومت نے بھی اس کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تو انٹر کالجیٹ باڈی کا اجلاس منعقد ہوتا تھا جس میں شہر بھر کے کالجوں کے صدور اور جنرل سیکریٹریز شرکت کرکے لائحہ عمل مرتب کرتے تھے۔

مجبوراً تحریکیں چلانے پر آمادہ ہوتے تھے۔ کراچی ایک عرصے تک طلبا تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ 1953ء میں جو طلبا تحریک چلائی گئی اس نے محض ڈاؤ میڈیکل کالج میں اصلاحات نافذ نہ کیں بلکہ پورے صوبہ سندھ کو اس کے فوائد حاصل ہوئے۔ فیسوں میں کمی ہوئی اور کالجوں کی لائبریری میں درسی کتابوں کی بہتات ہوئی۔

اسٹوڈنٹس یونین کا ایک فائدہ جو طلبا کو یہ ملتا تھا کہ اس کالج کی یونین کے صدر یا جنرل سیکریٹری پرنسپل تک عام طلبا کی مشکلات پیش کردیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض طلبا کی فیسیں معاف یا نصف کرا دیا کرتے تھے۔ اس طرح طلبا کے والدین بھی پرسکون رہتے تھے اور کالجوں میں درس و تدریس کا عمل خوش اسلوبی سے چلا کرتا تھا۔

کالج کے منتخب صدور اور جنرل سیکریٹری کو کئی سو طلبا کی حمایت حاصل ہوتی تھی جس کی بنا پر کالجوں میں انفرادی طور پر غنڈہ گردی کرنے والے عناصر پست ہوجاتے تھے۔ لیکن آج کل پروفیشنل کالجوں میں بھی غنڈہ گردی عام ہے۔ نام نہاد طلبا گروہ مختلف ناموں سے مار پٹائی کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ ڈاؤ میڈیکل کالج جو شائستگی کا مرکز تھا وہاں بھی یہ گروہ موجود ہیں۔ اگر اسٹوڈنٹس یونین ہوتی تو طلبا اپنی مشکلات یونین آفس میں پیش کرتے اور غنڈہ گردی کرنے والے گروہ یونین کے صدر اور جنرل سیکریٹری کے سامنے بے بس ہوتے۔ کیونکہ جنرل سیکریٹری یا صدر کو اسٹوڈنٹس کی بڑی حمایت حاصل ہوتی تھی اور اساتذہ کا احترام بھی باقی رہتا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ مرکزی حکومتوں کے ارباب اختیار کی بعض غلطیوں پر طلبا یونینیں اجتماعی طور پر ان پر اعتراض کرنے میں مصروف رہتی تھیں یہاں تک کہ تصادم کے امکانات پیدا ہوجاتے تھے۔ اسٹوڈنٹس یونین کی یہ سزا ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں سے ان کے جمہوری حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔

پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت عمران خان کی مقبولیت پر برسر اقتدار آئی ہے اور ابتدا میں عمران خان نے معراج محمد خان کے ساتھ عوامی شعور کو بلند کرنے اور آج تک اس کا دفاع کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عوام کی قوت پر آنے والے وزیر اعظم اپنی نوک قلم سے طلبا حقوق کی پاسداری کریں گے تاکہ دنیا کے دیگر جمہوری ممالک کی صف میں برابر سے کھڑے ہو سکیں۔