Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Such Aor Imandari Ka Aksar Yahi Sila Milta Hai

Such Aor Imandari Ka Aksar Yahi Sila Milta Hai

میرے گزشتہ کالم "تم جانتے نہیں میں کون ہوں" کے حوالے سے مجھ سے بہت سے صحافیوں نے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ میرا کالم کس ٹی وی رپورٹر سے متعلق ہے۔ میں نے جواب میں سب کو یہی کہا کہ مقصد بیماری کو ظاہر کرنا تھا نہ کہ کسی فرد کو نشانہ بنانا۔ رابطہ کرنے والوں سے میں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا ہم صحافی نہیں جانتے کہ ہم میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو بلیک میلنگ کرتے ہیں؟ بلکہ کچھ نے تو مبینہ طور پر کرپشن سے بہت پیسہ بھی بنایا ہے لیکن نہ ایسے صحافیوں کا احتساب اُن کے ادارے کرتے ہیں اور نہ ہی صحافتی تنظیموں اور میڈیا کے دوسرے اداروں نے خود احتسابی کا ایسا کوئی نظام بنایا ہے جو میڈیا کے اندر موجود کالی بھیڑوں کا احتساب کر سکے۔ ایک بڑے چینل کے نیوز ڈائریکٹر کا تو کہنا تھا کہ ایک صحافی نے چند سالوں میں مبینہ طور پر کروڑوں کمائے، دوسروں کی زمینوں پہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ کیا لیکن متعلقہ چینل کے مالکان سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی ایکشن نہیں لیتے۔
میرے گزشتہ کالم پر اُس رپورٹر نے بھی مجھ سے رابطہ کیا جس کے حوالے سے میں نے کالم لکھا تھا۔ اس کے باوجود کہ میں نے کالم میں اُس کا نام لکھا اور نہ ہی کوئی اشارہ دیا، متعلقہ رپورٹر پریشان تھا، جس پر میں نے اُسے کہا کہ وہ جو کہنا چاہتا ہے، مجھے لکھ بھیجے۔ میں اُسے اپنے کالم میں شائع کروں گا۔ رپورٹر نے مجھے اپنا جواب بھیجا جو کافی طویل تھا۔ کچھ غیر ضروری تفصیلات کو کاٹ کر درج ذیل میں رپورٹر کا جواب پیش کیا جا رہا ہے:
"آپ کے گزشتہ کالم کا تذکرہ سننے کو ملا تو فوراً خود بھی پڑھا۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا اوسان خطا ہوتے گئے، اس سارے معاملے میں بے گناہ ہونے کے باوجود ندامت محسوس کی کہ سچ و ایمانداری کا اکثر یہی صلہ ملتا ہے اور پچھتاوا بھی ہوا کہ واقعی پروفیشن کی طاقت سے کسی بڑے، نامی گرامی سے کئی کمپیوٹر گفٹ لینے والوں، سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے والوں کی طرح صرف نوکری کی تنخواہ پر اکتفا کرنے کے بجائے سائیڈ بزنس کرتا تو میرے بارے میں نہ کوئی بات کرتا اور نہ انگلی اٹھاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک اچھے اور شریف النفس بینکر دوست نے کمپیوٹر خریدنے کے تذکرہ پر اُس دکاندار کا بتایا اور کہا کہ یہ ایک بہت پرانے جاننے والے صاحب ہیں اور مجھے فوراً ان کی دکان پر لے گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے اپنا کوئی تعارف کرایا، نہ کسی "صحافیانہ" طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، جو عموماً ہمارے کچھ ساتھی کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دکاندار انتہائی چالاک اور چاپلوس شخص معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے ملتے ہی پرانے جاننے والے کی طرح نئی حکومت آنے کے بعد بزنس ٹھپ ہونے کا گلہ کیا اور ایک جینوئن گاہک دیکھ کر اپنی نشست پیش کرنے کی آفر سمیت کھانے، چائے اور جوس پینے کا بارہا تقاضا کیا۔ دکاندار اور میرا رابطہ کرانے والے دوست نے جب میرا تعارف کرایا تو دکاندار صاحب نے آپ سمیت کئی بڑے، نامی گرامی صحافیوں اور اداروں سے تعلقات کی تعداد گنوانا شروع کر دی۔ دورانِ گفتگو کئی امور پر مجھ سے متاثر ہونے کا بھی اظہار کیا۔ اسی دوران نئے، پرانے کمپیوٹر دکھائے۔ ایک استعمال شدہ کمپیوٹر دکھایا، قیمت بتائی 1 لاکھ 40 ہزار۔ جس پر میں نے کہا کہ یہ تو باکس سے کھلا ہوا کمپیوٹر ہے، اس کی قیمت تو کم ہونی چاہئے، ویسے بھی ایک حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے چھان پھٹک اور قیمت پر رعایت کا تقاضا کیا جا سکتا ہے، لہٰذا میں نے 1 لاکھ 20 ہزار کی آفر کی، اس دوران دو طرفہ رابطہ کار دوست نے 1 لاکھ 30 ہزار کی بات کر دی، جو دکاندار صاحب نے بخوشی اور میں نے مجبوراً قبول کر لی کیونکہ میرے اکائونٹ میں اس وقت 1 لاکھ 20 ہزار روپے ہی موجود تھے۔ خوشگوار ماحول میں خریداری کے معاملات طے پا چکے تھے کہ اسی دوران مجھے ایک بڑی خبر ملی جو میں نے ادارے کو بتائی اور مجھے لائن پر لیا گیا۔ یہ خبر میری تصویر کیساتھ اسکرین پر چل گئی۔ خبر چلنے کے بعد اس دکاندار نے خود میری تعریف کی جو بالعموم لوگ کسی کو ٹی وی پر دیکھ کر کیا کرتے ہیں۔ ٹی وی پر میری تصویر اور ساتھ وزیراعظم کی اجلاس کی فوٹیج دیکھ کر اس نے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ کے خان صاحب سے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ میں نے بات بدلنے کے لئے کہا کہ تعلقات نہیں ہیں بلکہ ہم صحافی لوگ سیاستدانوں سمیت سب سے ملتے ہیں، ان سے تعلق اچھا یا برا نہیں، پیشہ ورانہ ہوتا ہے۔ لیکن دکاندار صاحب نے صورتحال بھانپتے ہوئے اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا اور مجھے بااثر قرار دیتے ہوئے وعدہ لیا کہ میں فوری ان کے بزنس کی ڈیل پنجاب حکومت سے کرائوں اور گورنر پنجاب سے ابھی بات کروں۔ جس پر میں نے واضح کیا کہ اس طرح کا کام میرے بس کی بات نہیں، لیکن اگر کوئی ریفرنس ملا اور یہ جائز مسئلہ ہوا تو گورنر صاحب تک بات پہنچا دوں گا اور آپ کا کام ہو جائے گا، لیکن وہ بھائی صاحب فوری کام کرنے کا وعدہ کرنے کا تقاضا کرتے رہے۔ پھر وہ دوبارہ کھانے کا اصرار کرنے لگے تو میں نے معذرت کی کہ مجھے کام پر جانا ہے۔ اس پر وہ بولے:اب تو آپ سیدھے بنی گالہ جائیں گے؟ میں نے کہا:جی۔ اس کے بعد میں نے 1 لاکھ 20 ہزار کی رقم دکاندار کے اکائونٹ میں منتقلی کی تصدیق کرائی اور بینکر دوست کو ضامن بنا کر بقیہ 10 ہزار ایک، دو دن میں ادا کرنے کا وعدہ کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ابھی کمپیوٹر یہیں پڑا ہے، جب رقم کی مکمل ادائیگی ہو گی تو اٹھا لوں گا۔ اس دوران آپ ضروری سافٹ ویئرز انسٹال کر دیں تو دکاندار صاحب نے محبت سے گلے لگتے ہوئے کہا کہ کیا بات کر رہے ہیں، آپ کی اپنی دکان ہے، آپ ابھی کچھ بھی نہ دیتے تو میں آپ کو کمپیوٹر دے دیتا، پیسے تو آ ہی جاتے۔ اس دن کے بعد دفتر اور نامساعد گھریلو مصروفیات کے باعث دو سے تین دن گزر گئے، دکاندار صاحب نے مجھے میسج کیا اور ساتھ ہی بینکر دوست کے پاس جا پہنچے کہ میرا کام بھی نہیں ہوا اور باقی 10 ہزار بھی نہیں آئے، جس پر انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے تسلی دی کہ میں شہر سے باہر ہوں، واپس آکر ادائیگی کر دوں گا۔ اسی دوران میں ایک دوسرے دوست کو فون کرکے 10 ہزار دکاندار صاحب کے اکائونٹ میں بھجوانے کا کہہ کر تسلی کر بیٹھا۔ ایک دو روز بعد میں واپس آیا تو بیٹے نے بتایا کہ ایک چھوٹی سی ڈیوائس ڈیٹا ٹرانسفر کیلئے اس سسٹم سے منسلک ہوتی ہے۔ اس پر میں نے فون کر کے دکاندار صاحب سے پوچھا اور ڈیوائس ارینج کرنے کا کہا، وہ کہنے لگے کہ فکر نہ کریں، وہ ڈیوائس مل جائے گی اور وہ ہمارے بھتیجے کیلئے گفٹ ہو گی۔ اسی دوران انہوں نے اس ڈیوائس کی تصویریں وٹس ایپ کیں، میں نے بیٹے کوتصویریں دکھائیں تو اس نے ایک کا انتخاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کم قیمت بھی ہے اور مناسب بھی، انکل کے پاس استعمال شدہ پڑی ہو گی تو وہ ایک ڈیڑھ ہزار میں مل سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے دکاندار صاحب کو گڈ موڈ میں بھتیجے کے گفٹ وصولی کا میسج کیا، جو آپ نے اپنے کالم میں انگریزی میں لکھا ہے؛ تاہم مذکورہ بالا بیک گراؤنڈ کا ذکر نہیں کیا۔ اگلے روز میں دکان پر پہنچا تو دکاندار صاحب روایتی مصنوعی مسکراہٹ اور بے تحاشا محبت کا اظہار کرنے کے بعد بولے:میرے کام کا کیا ہوا؟ میں تھوڑا پریشان ہوا، کوئی بہانہ نہ بنا تو کہہ دیا کہ ایسے کاموں میں وقت لگتا ہے، ساتھ ہی ڈیوائس کا پوچھا، جس پر دکاندار کے تیور بدل گئے۔ بولے:اتنے دن ہو گئے، آپ نے تو بقیہ رقم بھی ابھی تک ادا نہیں کی، یہ کون سا طریقہ ہے بلیک میلنگ کا؟ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور دماغ گھوم گیا۔ میں نے جواب دیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اور کیسی بلیک میلنگ؟ دکاندار صاحب نے فوراً جیب سے فون نکالا اور بولا:تم جانتے نہیں انصار عباسی میرے کزن ہیں، وہ بڑے صحافی ہیں، ابھی تمہاری شکایت لگاتا ہوں، جس پر میں بھی سیخ پا ہو گیا۔ میں نے کہا کہ وہ میرے محترم اور بڑے بھائی ہیں، تم مجھے ان کا نام لے کر کیوں دھمکا رہے ہو، یہ تم کس طرح کی بات کر رہے ہو؟ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے، میں نے اس کو بتایا کہ چیک کرو رقم ٹرانسفر ہو چکی ہے، میرے بندے نے کر دی ہو گی۔ اسی دوران میں نے اپنے دوست کو تصدیق کے لئے فون کیا چونکہ نمازِ مغرب کا وقت تھا، اُس نے میرا فون اٹینڈ نہ کیا لیکن اس دوران دکاندار صاحب مجھ پر بطور صحافی جنتا گند اچھال سکتے تھا، انہوں نے اچھالا، میں نے کمپیوٹر واپس کرنے کی دھمکی دی تو پھر جو منہ میں آیا، بولتے رہے۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں، میں نے فوراً فون نکالا اور فوری طور پر 10 ہزار ان کے اکائونٹ میں منتقل کر دیئے۔ میں نے دکان سے باہر نکل کر اس رویے پر شکایت کیلئے اپنے مشترکہ بینکر دوست کو بلایا۔ وہ آئے تو محترم نے پھر رویہ بدل لیا اور کہ کہا کہ یہ بھائی صاحب پہلے پیسے نہیں دے رہے تھے، تاہم اب دے دئیے ہیں، میں سن کر حیران ہوا، انہوں نے بھی دکاندار صاحب کے رویے پر معذرت کرتے ہوئے قریب ہی موجود اپنے آفس چلنے کا کہا۔ وہاں پہنچے ہی تھے کہ محترم دکاندار صاحب ڈیوائس اٹھائے دفتر پہنچ گئے اور ڈیوائس دیتے ہوئے بار بار اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ ہوتے ہوئے معافی مانگتے رہے۔ میں نے خاموشی اختیار کر لی، بار بار اصرار پر میں نے کہا کہ آپ اس ڈیوائس کی قیمت لیں اور معاملہ ختم کریں۔ بینکر صاحب گواہ ہیں کہ میرے اصرار کے باوجود دکاندار صاحب نے اس ڈیوائس کی قیمت بتائی اور نہ ہی رقم لینے پر آمادہ ہوئے۔ پھر میں نے کہا کہ مجھے یہ نہیں چاہئے۔ میں واپس روانہ ہونے لگا تو بینکر صاحب جو اس ساری صورتحال پر پریشان تھے، ڈیوائس اٹھائے میرے پیچھے آئے اور کہا کہ یہ تو لیتے جائیں، دکاندار صاحب کہہ رہے ہیں کہ اس کی قیمت کمپیوٹر میں وصول کر لی ہے اور معاملہ ختم کریں، کل بیٹھ کر ماحول کو خوشگوار کریں گے۔ میں بھی خاموشی سے روانہ ہو گیا اور دونوں سے دوبارہ رابطہ نہیں ہوا۔ عباسی صاحب! آپ خود اور قارئین جائزہ لیں اور دیکھیں بلیک میل کس نے کیا؟ کیا مجھے کوئی اس سے کام تھا یا اس دکاندار کو مجھ سے، جو دس ہزار کی جعلی رعایت دے کر گورنر سے بزنس ڈیل چاہتا تھا؟ تین سال پرانے استعمال شدہ، کھلا ہوئے کمپیوٹر کی مارکیٹ پرائس سے زائد اور مکمل ادائیگی کے باوجود میں نے دکاندار سے مزید کیا مفاد لینا تھا؟ میں نے اس کا کون سا حق مارا یا رقم مار لی؟ کس گفٹ کا تقاضا کیا؟ کیا صحافی معاشرے کا فرد نہیں؟ کیا وہ عام شہری کی طرح مارکیٹ سے خرید و فروخت نہیں کر سکتا؟ شکایت تو میری بنتی تھی لیکن میں معمول کا معاملہ سمجھ کر خاموش ہو گیا! اس شخص نے غلط بیانی کرکے ہماری ساری عمر کی ایمان دارانہ اور پیشہ ورانہ زندگی پر دھبہ لگانے کی کوشش کی۔ میں تو یہی کہوں گا کہ میرے ساتھ وہی ہوا جو مری کے بعض دکاندار باہر سے آنے والے خریدار سیاحوں کے ساتھ کرتے ہیں اور وہ بھی اسلام آباد میں اور شکایت بھی میری ہی لگی۔ عباسی صاحب! میں نے یہ معاملہ آپ کے کہنے پر آپ کے گوش گزار اور ساتھ ہی اللہ تعالی کے سپرد کر دیا ہے کہ وہی عزت کا نگہبان، پردہ پوش اور معاف کرنے والا ہے۔ آپ اگر مناسب سمجھیں تو شناخت ظاہر کئے بغیر میرا موقف چھاپ دیں۔ آپ نے جس بڑے پن کا مظاہرہ کیا میں اس پر بھی ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیر"۔ میری طرف سے صرف ایک وضاحت کہ دکاندار مری کا رہنے والا اور عباسی برادری سے ضرور تعلق رکھتا ہے لیکن میرا دور کا بھی کزن نہیں۔ نیز یہ کہ اُس نے مجھ سے رابطہ کرکے نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا کہ جب میں موبائل ٹھیک کروانے اُس کے پاس گیا تو اُس نے وہ قصہ بیان کیا، جو میں نے اپنے پچھلے کالم میں شائع کیا تھا۔

About Ansar Abbasi

Ansar Abbasi

Ansar Abbasi born on June 12, 1965, is an investigative editor for one of the leading newspapers from Pakistan, The News International. He has published several exclusive reports.

Abbasi was born in Murree, Pakistan, to a Dhund Abbasi family of that locality. He received his early education in his native village. Abbasi obtained matriculation from Sir Syed School, Rawalpindi. Later he joined Government College Asghar Mall, where he completed his Intermediate and Bachelor of Arts education. He received his Masters degree from Balochistan University, Quetta. He also earned another Masters degree from Goldsmiths College, University of London. His research thesis was on child labor.