بجٹ کے موقع پر یہ خوش آئند منظر دیکھنے میں آیا، جب لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے، کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ اپوزیشن کی یہ دونوں جماعتیں جو پہلے تو پی ڈی ایم میں ایک دوسرے کی حلیف تھیں لیکن یہ سیاسی رومانس زیادہ عرصے تک نہیں چل سکااوردونوں جماعتوں کی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اس وقت بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے جب انہوں نے پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شوکاز نوٹس بھیج دیا کہ آپ کوسینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی "باپ" کے ووٹ لینے کیوں پڑے جبکہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کر کے آپ نے پی ڈی ایم کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے۔ دونوں جماعتوں کو سات روز میں وضاحت دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو نے یہ نوٹس میڈیا کی موجودگی میں حقارت سے پھاڑ دیا۔ یہ بات عجیب سی تھی کہ اپوزیشن اتحاد نے مشاورت کرنے کے بعد تحریری جواب طلبی کرلی حالانکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نہ صرف دو الگ جماعتیں ہیں بلکہ انتخابات میں ایک دوسرے کی حریف بھی رہی ہیں، دونوں کا نظریاتی تشخص بھی الگ الگ ہے۔ مستقبل میں اپوزیشن کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے لیے تیار ہوسکتی ہے لیکن ابھی اس بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا قبل از وقت ہوگا۔ بعدازخرابی بسیار ہی سہی دونوں جماعتوں کو احساس ہوا کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہے، بالخصوص بجٹ کے حوالے سے پارلیمنٹ میں ڈیبیٹ کے دوران دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے دست و گریبان نظر آئیں تو اس کا فائدہ یقیناًحکمران جماعت کو ہی ہوگا۔ بلاول بھٹو نے مردان میں گفتگو کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر پی ڈی ایم جمہوری تحریک ہی نہیں، ہم اسمبلیوں سے استعفے دیتے تو عمران خان کو کھلا میدان مل جانا تھا۔ ہم پی ڈی ایم میں واپسی نہیں چاہتے تاہم پارلیمان میں مل کر جدوجہد کرنے کو تیار ہیں۔
عجیب ستم ظریفی ہے کہ وفاقی وزرا شیخ رشید، فواد چودھری اپوزیشن کی صفوں میں دراڑوں کا فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن میں انتشار کا سب سے بڑا فائدہ حکمران جماعت کو ہی ہے لیکن پی ٹی آئی کا اپنا حال بھی پتلا ہے۔ خدا خدا کر کے جہانگیر ترین گروپ جس نے علم بغاوت بلند کیا ہوا تھا وہ عدالت کے اس فیصلے کے بعد کہ جہانگیر ترین اور علی ترین کو گرفتار کرنے سے پہلے عدالت کو آگاہ کیا جائے، کے بعد ٹھنڈا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے نے بینکنگ اور سیشن کورٹ میں یہ بیان دیا کہ ہمیں جہانگیر ترین کی گرفتاری کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد جہانگیر ترین گروپ نے بجٹ پاس کرانے کے لیے پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے اتحادیوں کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ بجٹ کے دن وزیراعظم عمران خان نے اتحادیوں کی میٹنگ بلائی اس میں چودھری برادران کی عدم شرکت کو خصوصی طور پر نوٹ کیا گیا 'بگڑے بگڑے سے سرکار نظر آتے ہیں ' بلکہ ایک روز پہلے کابینہ کے اجلاس میں مسلم لیگ(ق) کے سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جس پر وزیراعظم عمران خان نے استفسار کیا کہ کھل کر بتائیں آپ کے مطالبات کیا ہیں، وفاقی وزیرنے معذرت کی کہ اتنے بڑے فورم پر ان کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے شکوے شکایت بھی ہیں۔ ویسے تو اتحادیوں کے ساتھ اور پارٹی کے اندر چھیڑ خوباں چلتی رہتی ہے اسے مینج کرنا پارٹی لیڈرشپ کا ہی کام ہوتاہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے ا ختلافات اپنی جگہ لیکن کچھ معاملات میں خیالات ملتے بھی ہیں، دونوں پارٹیوں کی قیادت اسٹیبلشمنٹ سے بقائے باہمی کی خواہشمند ہے۔ پیپلزپارٹی کے مدارالمہام آصف علی زرداری بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مقصد کے لیے مسلم لیگ (ن)کی لیڈرشپ میں پارٹی کے صدر شہباز شریف سے زیادہ کوئی موزوں شخصیت نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے اگرچہ انہوں نے اپنے برادرخورد کے اصرار پر فی الحال فوجی قیادت پر لفظی گولہ باری مؤخرکی ہوئی ہے لیکن اس معاملے میں ان کی کریڈیبلٹی کچھ زیادہ اچھی نہیں، اسی طرح ان کی صاحبزادی مریم نواز کی شعلہ نوائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ابتدائی طور پر بلاول بھٹو اور مریم نواز کے تعلقات بہت اچھے تھے اور جس انداز میں صاحبزادی اول نے شاہد خاقان عباسی کے بلاول بھٹو کو بھیجے گئے نوٹس کو برملا سراہا، اس کی روشنی میں ان دونوں کے تعلقات میں بھی سردمہری آگئی۔ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کی قیادت نے سمجھا کہ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف سے تعلقات بہتر بنانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ ویسے ستم ظریفی ہے کہ شہباز شریف پیپلزپارٹی بالخصوص زرداری صاحب کے معاملے میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ ان کی تقریریں جن میں وہ زربابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنیکی باتیں کرتے رہے ہیں، کسے یاد نہیں ہونگی، تاہم سیاست کا ایک آزمودہ اصول ہے "بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے"۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کو گرانے کے منصوبے کی بازگشت اب سنائی نہیں دے رہی۔ اس کے بجائے اپوزیشن کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کو بجٹ پر ٹف ٹائم دیں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہر اپوزیشن کا کام ہی بجٹ پر ٹف ٹائم دینا ہوتا ہے۔ ویسے بھی بجٹ کی منظوری قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے ہی ہوجاتی ہے۔ یعنی ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی بجٹ منظور ہو جاتا ہے۔
بجٹ کے حوالے سے وفاقی وزراء کا مبارک سلامت کا کورس بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ ویسے بھی بجٹ کی منظوری پہلے وفاقی کابینہ سے ہی لی جاتی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کی پرسنیلٹی کلٹ بنانے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے وفاقی وزراء اسے انہی کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ وزیراطلاعات فواد چودھری باس کی خوشنودی کے حصول کی دوڑ میں کافی آگے نکل گئے اور جوش خطابت میں یہ تک فرما گئے کہ آئندہ سات برس تک موجودہ حکومت ہی قائم رہے گی۔