قومی اسمبلی کا اجلاس شدید ہنگامہ آرائی کے باعث تین روز تک ملتوی ہو جانا، پارلیمانی جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی اچھی خبرنہیں تھی، لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف ہلڑ بازی اور مارکٹائی کے اس ماحول میں بسیار کو شش کے باوجود اپنی تقریر مکمل نہ کر سکے، ان دنوں کو پاکستانی پارلیمان کی تاریخ کے سیاہ ترین دن قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم جمعرات کو ایک اچھی خبر آئی کہ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے بحرانی صورتحال پر قابو پانے کے لیے تفصیلی ملاقات کی۔ یہ حقیقت ہے کہ پارلیمانی نظام جمہوریت میں پارلیمنٹ کا کلیدی رول ہوتا ہے، اسی لئے جب غیر جمہوری طریقوں سے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے پارلیمنٹ کو توڑ کر ہی شب خون مارا جاتا ہے، شا ید اسی لیے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ پارلیمنٹ کا رول جمہوریت کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ سپیکر نے ہنگامہ آرائی کے مرتکب سات ارکان اسمبلی کا داخلہ بند کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، تاہم اپوزیشن کی جانب سے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے مبینہ جانبدارانہ رویئے کے باعث ان کے خلاف تحریک عدم اعتما د جمع کرا دی گئی اور سپیکر اسد قیصرکے خلاف جمع کرانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اب اپوزیشن یہ کہتے ہوئے کہ حکومت نے ایجنڈا بلڈوز کرکے جو قانون سازی کی اسے واپس لے، اپنے فیصلے سے دستبردار ہو گئی ہے اور اس نے تحریک عدم اعتماد واپس لے لی ہے، جس پر سپیکرنے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ایک جوائنٹ کمیٹی بنے گی جو حالیہ قانون سازی کا جائزہ لے گی۔ اپوزیشن نے تحریک میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ڈپٹی سپیکر نے سیشن کے دوران قواعد و ضوابط اور جمہوری اقدار کو پامال اوراپوزیشن کو عوام کی نمائندگی کرنے اور بولنے کے حق سے محروم کیا، وہ قانونی بلز جو قائمہ کمیٹیوں کو اب تک نہیں بھیجے گئے، ان کو براہ راست منظور کیا گیا۔ حزب اختلا ف کا تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ اگرچہ قا بل فہم تھا لیکن اسے درگزر کا رو یہ اپناتے ہوئے تحمل سے کام لینا چاہیے تھا کیونکہ اسمبلی میں موجود ہ کشیدگی کا خاتمہ جتنا جلدی کیا جاتا اتنا ہی اچھا تھا، یہ جمہوریت کیلئے بھی بہترہے کیونکہ پا کستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے لازمی ہے کہ جمہوری اداروں کو مضبوط کیا جائے اور ارکان اسمبلی اجتماعی خودکشی سے بچ سکیں۔ مقام شکر ہے کہ عوام کی نما ئندگی کرنے کے دعویداروں نے بقائے باہمی کے تحت آگے چلنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
حا لیہ چند روز کے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکرپر اپوزیشن کا اعتماد اٹھ جانا بھی مناسب نہیں، اسے بحال کئے بغیر پارلیمنٹ کتنی فنکشنل ہوسکے گی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن ان پر یہ الزام لگا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے ایما پر ہی ہو رہاہے ورنہ وہ یہ بیان دینے کے سا تھ ساتھ کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چا ہیے، اپنے ارکان اسمبلی کو ہدایت بھی کرتے کہ وہ ہنگامہ آرائی اور اپوزیشن کی طرف سے مشتعل کرنے کے روئیے پر جواب دینے کے بجائے نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں۔ تاہم اس سارے معاملے کاایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کے نزدیک خان صاحب کی اپنی کوئی کریڈبیلٹی نہیں ہے اور یہ سنگین الزام برملا لگا یا جا رہا ہے کہ تمام ہنگامہ آرا ئی ان کی خواہش پر ہی ہو رہی تھی۔ ایک آئیڈیل صورتحال تو یہ ہوتی کہ قائد ایوان، قائد حزب اختلا ف کے ساتھ مشاورت کر کے معاملات کو بہتر بناتے لیکن وہ توبقول ان کے "چوروں اچکوں " کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہی نہیں بلکہ وہ ان کے سا تھ علیک سلیک بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ جمہوریت کا پہیہ چلانے کے لیے حکومتی جماعت اور اپوزیشن کے درمیان تال میل ہونا اہمیت کا حامل ہے۔ اسی قسم کے اقداما ت قائد حزب اختلا ف شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کوبھی کرنے چاہئیں، تب ہی گاڑی آ گے چلے گی بصورت دیگر بعداز خرابی بسیار کف افسوس ملنے کا کوئی فا ئد ہ نہیں ہو گا۔
کفر ٹوٹا خد اخداکر کے، شہبا زشریف ہنگا مہ آرائی کی ہیٹ ٹرک کے بعد جمعرات کو بجٹ پرسکو ن سے اپنی اڑھائی گھنٹے کی طویل افتتاحی تقریر مکمل کر پائے۔ ان کا کہنا تھا:کہ اگر عوام کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے، 383 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگنے جارہے ہیں، بجٹ سے مزید بدحالی آئیگی اور مہنگائی آسمان کو چھوئے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا:آپ نیا پاکستان تو نہیں بناسکے، قوم کو کچھ توکرکے دکھاتے، تقاریر اور باتوں سے قومیں نہیں بنتیں، دن رات محنت کرنی پڑتی ہے، یہ ڈکٹیٹر شپ یا فاشزم نہیں کہ ڈنڈے سے ہر چیز چلادیں، حالیہ بجٹ غریب عوام کے ساتھ مذاق ہے جسے منظور نہیں ہونے دیں گے اور اسکے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔
قومی اسمبلی میں ایک روز میں کئی بلز منظور کرانا واقعی جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے، بہر حال برادر خورد کی تقریر صلح جوئی کی ضامن قرار دی جا رہی ہے، اپو زیشن ارکان کا فرض ہے کہ وہ حکمران جماعت کے ارکان کی تقریریں بھی صبر کے سا تھ سنیں، اپوزیشن ارکان کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے با لخصوص روحیل اصغر کو تو یہ بات کہ گالیاں دینا پنجاب کا کلچر ہے، نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اسمبلی میں وہ نئے نہیں بلکہ نسبتا ً سینئر پارلیمنٹیرین ہیں۔ یہ درست ہے کہ پنجاب میں گالی گلوچ کا مقصد ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ گالی کھانے والے شخص کو نیچا دکھایا جا ئے بلکہ دوستی اور بے تکلفی میں ایک دوسرے کو ایسے الفاظ کہہ جاتے ہیں لیکن جو قومی اسمبلی میں ہوا اسے پنجاب کا کلچر بتانا سراسرزیادتی ہے۔ مزید برآں ان کی یہ بات اگر وقتی طور پر تسلیم بھی کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پنجاب اسمبلی میں ارکان ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے سوا کوئی اور بات نہیں کر سکیں گے۔ پنجاب کی روایات تو بلھے شاہ، بابا فرید، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش، سلطان باہو اور دیگر اولیا کرام کی ہیں۔
قائد حزب اختلاف نے بجٹ کے حوالے سے حکومت پر کڑی تنقید کی جو حکمران جماعت کے ارکان نے خندہ پیشانی سے سنی، باقی کارروائی کے دوران بھی ماحول ایسا ہی ہوناچاہیے کیونکہ سال کے بجٹ سے ملک کا اقتصادی مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا بجٹ کی ڈبیٹ میں شائستگی سے بات کرنا لازمی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی باتوں سے اختلاف کا حکمران جماعت کو حق حاصل ہے اور وہ اس کا جواب گالی سے نہیں بلکہ دلیل سے دے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو بھی حکمران جما عت کا مرغ دست آموز بننے کے بجائے اپنے فرائض منصبی غیرجانبداری سے ادا کرنے چاہئیں۔ اس حوالے سے حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کر کے ایوان چلانے کے رولز آ ف دی گیمز پر عمل درآمد یقینی بنائیں اور اپوزیشن کو بھی وسیع القلبی اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ورنہ ماحول مزید مکدر اور حاصل کچھ نہیں ہو گا۔