وزیر خزانہ شو کت تر ین نے معیشت کو سب اچھا ہے، ، کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔ ان کے مطابق" شرح نمو کے حوالے سے گزشتہ بجٹ میں حکومت کا اپنا اندازہ 2.1 فیصد تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا تخمینہ تو اس سے بھی کم تھا لیکن حکومت کی طرف سے مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، زراعت اور تعمیراتی شعبے کو گیس، بجلی کی مد میں مراعات دینے سے بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ نے مثبت نمو کا مظاہرہ کیا جو تقریباً 9 فیصد تھی۔ اسی طرح مالی سال 21-2020 میں عبوری شرح نمو 3.94 فیصد رہی، جو مجموعی طور پر تمام شعبوں میں مثبت ردعمل کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا زراعت نے 2.77 فیصد نمو کی، کپاس خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں نمو منفی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن باقی 4 فصلوں، گندم، چاول، گنا اور مکئی نے بہتر کارکردگی دکھائی، صنعتی شعبے میں 3.6 فیصداور خدمات میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس کا ہدف 2.6 فیصد تھا۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 9 فیصد اضافہ ہوا، جس سے مجموعی طور پر شرح نمو میں اضافے میں مدد ملی۔ وزیر خزانہ کے اقتصادی سروے کے مطابق ترسیلات زر نے ریکارڈ قائم کردیا اور اس وقت 26 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں جو 29 ارب ڈالر تک جائے گی، عالمی بینک اور متعدد تحقیقات میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ کورونا بحران کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی آئے گی لیکن اس وقت 29 فیصد سے بڑھ رہی ہے جو ریکارڈ ہے، جس سے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ گزشتہ 10 ماہ سے سرپلس ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن بھی بہت بہتر ہے اور 11 ماہ کے دوران ہم 42 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 18 فیصد سے زائد ہے، مارچ کے بعد سے ماہانہ بنیاد پر ٹیکس کلیکشن کی نمو 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے اس لئے ہمارا اندازہ ہے کہ ہم 47 کھرب روپے کے تخمینے سے بھی آگے نکل جائیں گے، اگلے سال کے بجٹ میں یہ تخمینہ 58 کھرب روپے رکھا ہے، جولائی سے مارچ میں مالی سال 2021ء کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 95 کروڑ 90 لاکھ ڈالر یعنی جی ڈی پی کا 0.5 فیصد سرپلس تھا جس کے مقابلے میں گزشتہ برس خسارہ 4 ہزار 141 ملین ڈالر تھا جو جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھا۔ سروے میں مزید کہا گیا کہ مالی سال 2021ء میں جولائی سے مارچ کے دوران مصنوعات کی برآمدات میں 2.3 فیصد سے 18.7 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو ایک سال قبل اسی دوران 18.3 ارب ڈالر تھیں، مصنوعات کی درآمدات میں 9.4 فیصد 37.4 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو گزشتہ برس 34.2 فیصد تھی، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 17.7 فیصد 18.7 ارب ڈالر تھا جبکہ ایک سال قبل 15.9 ارب ڈالر تھا"۔ اقتصا دی سر وے پیش کر نے کے لیے ہونے والی پر یس کانفرنس میں تر ین صا حب کے ساتھ بیٹھے مشیر تجارت رزاق دا ؤد، وزیر صنعت و پیداوار خسر وبختیا ر نے اپنی ڈفلی بجا ئی، تا ہم معیشت کو دپیش مختلف چینلجز کا بھی ذکر کیا۔ وزیر خزانہ نے بر ملا کہا آ ئی ایم ایف سے معاملا ت ٹھیک نہیں جا رہے، بین الاقوامی مالیا تی ادارے کا اصرار ہے کہ جس طر ح طے ہو ا تھا کہ بجلی کے ٹیر ف کو بڑ ھا دیا جا ئے لیکن وزیراعظم نے انکار کر دیا، آئی ایم ایف نے کہا ٹیکس بڑھاؤ، وہ بھی منع کردیا اور صاف کہا کہ غریب اور تنخواہ دار پر بوجھ نہیں ڈال سکتے۔
ما ہر ین معیشت جن میں سے اکثر کو حکمران طبقہ نام نہاد قرار دیتا ہے حکومت کی اقتصا دی کا رکردگی سے قطعا ً مطمئن نہیں ہیں۔ ان کاکہنا ہے پیدا وار میں اضا فے کے اعدا دوشمار جعلی ہیں بالخصو ص 3.9فیصد شر ح نمو پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اکثر بین الاقوامی ما لیا تی اداروں حتیٰ کہ سٹیٹ بینک آ ف پاکستان نے بھی اس سے بہت کم لگ بھگ 2.9فیصد اضا فے کا انداز ہ لگا یا ہے۔ شو کت تر ین بجا طور پر اس بات پر فخر کر تے ہیں کہ شر ح سو د 13فیصد سے کم کر کے 7فیصد کردی گئی ہے۔ حکومتی تر جمانوں کا اصرار ہے کہ مہنگا ئی میں 25 فیصد اضا فہ ہو ا ہے لیکن ساتھ ہی سا تھ 2018ء سے لے کر 2021ء تک موجو دہ دور حکومت میں فی کس آمد نی 1361 ڈالر سے بڑھ کر 1543 ڈالر ہو گئی۔ وزیر اطلاعات فوا دچودھری کے بقول ترسیلا ت زر کے تنا ظر میں فی کس آمدنی میں ریکا رڈ اضا فہ ہوا ہے۔
ان تمام دلآ ویز دعوؤں کا اس وقت پتہ چلے گا جب بجٹ کے بعد ما رکیٹ فورسز رنگ دکھا ئیں گی۔ بجٹ دستا ویز کے سر سر ی جا ئز ے سے یہ بات پو ری طر ح عیا ں ہو جا تی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں پیش ہونے والے بجٹ بھی اسی طر ح ہو تے تھے، یہ بجٹ بھی سیٹھوں کے لیے ہے اور غر یب آدمی مسلسل پٹے گا۔ ترین صا حب اس بات پر کا فی فکر مند ہیں کہ نجکا ری کا عمل آگے نہیں بڑ ھ سکا۔ یقینا ایسا ہی ہے، پی آ ئی اے، ریلو یز، سٹیل ملز جیسے سفید ہا تھی جنہیں حکومتیں اربوں رو پے کی سبسڈی دے چکی ہیں معیشت کے گلے کا طوق بنے ہو ئے ہیں۔ میر ے عزیز دوست اورما ہر اقتصا دیا ت ڈاکٹر ندیم الحق جو آ ئی ایم ایف سے ریٹا ئر ہونے کے بعد اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس قائد اعظم یونیورسٹی کیمپس کے وا ئس چانسلر ہیں، انہوں نے 92 نیوز پر میر ے پر وگرام ہوکیا رہا ہے، میں صاف گو ئی سے کام لیتے ہو ئے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ا ہے، ان کی رائے میں آ ئی ایم ایف کی شرائط مان لینی چاہئیں کیونکہ آ ئی ایم ایف کا پروگرام معیشت میں استحکام کا سبب بنے گا، ڈاکٹر صا حب کے مطابق ہمارا بجٹ آئی ایم ایف سے طے شدہ ہے۔ وزیر خزانہ نے گروتھ کی بات کی جو اچھا ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم اپنا نظام بہتر کریں، شرح نمو چار فیصد ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
حکومتی ماہرین کی جی ڈی پی کی بہتر شر ح نمو پرسو ئی اٹکی ہو ئی ہے، اگر ایسا ہے پھر تو پاکستان کے پوں با رہ ہوگئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ما ضی کی حکومتوں میں بھی تر قی کے اعدا د وشمار اور جی ڈی پی کی گروتھ بڑ ھا چڑ ھا کر پیش کی جاتی تھی بالآخر معیشت ایک جگہ جا کر رجعت قہقر ی کا شکا ر ہوگئی۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ حکمرانوں کے دعو ؤں کے برعکس مہنگا ئی میں اضا فہ اور افر ا ط زر بھی بڑ ھا ہے۔ موجو دہ حکومت کے تر جمانوں کی فوج ظفر مو ج اس بات پر مصر ہے کہ بجلی کی پیدا وار سر پلس یعنی مانگ سے زیا دہ ہے، پا ور سیکٹر میں بنیا دی سر ما یہ کا ری بے پناہ ہوئی ہے لیکن آج کل جب گھنٹوں گھنٹوں غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے تو پھر سا ر ا ملبہ سا بق حکومت پرڈال دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ وطن عزیز میں انفر اسٹر کچر کو بہتر بنا نے کے حوالے سے مز ید سر ما یہ کاری کی گئی بلکہ اس بارے میں کو ئی بے قاعدگی بھی سامنے نہیں آ ئی۔ یہی حال ریلو یز کا ہے، ٹر یک کی معمولی مر مت پر بھی کو ئی توجہ نہیں دی گئی، حا دثات ہو رہے ہیں جن میں کئی قیمتی جا نیں ضا ئع ہو چکی ہیں، رہی سہی کسر سابق وزیر ریلو یز شیخ رشید نے پو ری کردی، ان کے دور میں ریکا رڈ حا دثات ہو ئے جن میں خاصا مالی اور جانی نقصان ہو ا۔ اس پس منظر میں بسیا ر کو شش کے باوجود معیشت کے خد وحال درست سمت میں نہیں جا رہے۔ بہرحال بجٹ تو آنی جانی چیز ہے، ہرسال پیش کیا جا تا ہے لیکن جب تک مہنگا ئی، بے روز گاری اور کسا د با زاری کم نہیں ہو گی عوام پستے رہیں گے۔