ایران کے ایٹمی پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر محسن فخری زادکا اسرائیل کے ہاتھوں دن دہاڑے قتل اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ خطے کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر فخری کا شمار ایران کے جوہری پروگرام کے معماروں میں ہوتا تھا۔ انہیں دماوند میں بم دھماکے اور گاڑی پر فائرنگ کر کے مارا گیا، حملے میں ان کے چھ ساتھی بھی جاں بحق ہوئے۔ اگرچہ ایران نے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے لیکن خدشہ ہے کہ جب تک ٹرمپ وائٹ ہاوس سے رخصت نہیں ہوجاتے وہ اس کی آڑ میں ایران پر حملہ نہ کردیں۔ اسرائیل اور امریکہ کو ایران کا ایٹمی پروگرام کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایران کے ایک اعلیٰ فوجی افسر جنرل قاسم سلیمانی امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ کی شہہ پر ہو رہا ہے۔ مغرب کی طرف سے ایران کو دہشت گرد قرار دینا معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے حالانکہ ایران نے امریکہ اور یورپی ممالک سے ایک پْر پیچ قسم کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایران نے ایٹمی پروگرام کو مشروط طور پر ختم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا لیکن امریکی صدر ٹرمپ کو یہ معاہدہ ایک آنکھ بھی نہ بھایا اور اسے بیک جنبش قلم ختم کر دیا۔
حالیہ واردات میں جیسا کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے درست طور پر دعویٰ کیا ہے کہ یہ سب کچھ اسرائیل کی شہہ پر کیا جا رہا ہے۔ دراصل اسرائیل کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ہارنے کا بہت قلق ہے اور ایران کے بارے میں اس کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ٹرمپ یہودی ریاست کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، اس کے ہوتے ہوئے اسرائیل کو کوئی آنچ نہیں پہنچ سکتی تھی لیکن اب معاملہ الٹا ہو گیا ہے۔ یورپی ممالک اور نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن، ایران کے ساتھ معاہدے کو مکمل ختم نہیں کرنے دیں گے بلکہ اسے کسی نہ کسی شکل میں بحال کیا جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل پاکستان جیسے ممالک کو دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے اور ان کا ساتھ دینے کا برملا الزام دیتے رہتے ہیں لیکن جس قسم کی ریاستی دہشت گردی کے وہ مرتکب ہو رہے ہیں اس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ کبھی پاکستان پر الزام عائد کیا جاتاہے کہ دہشتگردوں کو فنڈنگ کے لیے پاکستان سے منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم ابھی تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہیں لیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف جس انداز سے امریکہ، روس اور اسرائیل ریاستی طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتے ہیں اس سے دنیا کے امن کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ بدقسمتی سے دھونس کے اس روئیے کو بعض عرب ممالک کی بھی آشیر باد حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت بعض عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور سعودی عرب کے حوالے سے بھی اس قسم کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ دوسری طرف یہ غیرمصدقہ اطلاعات پھیلائی جا رہی ہیں کہ پاکستان پر بھی دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے۔ انہی اطلاعات کے مطابق پاکستان پردبائو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ڈالا جا رہا ہے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سرد مہری کی طرف گامزن ہیں۔
پاکستان میں ایک مخصوص لابی اس پراپیگنڈے کو بھی ہوا دے رہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے، اس نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟ اگرچہ حکومت پاکستان نے اس کی برملا تردید کی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ تاثر کیوں ابھر رہا ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہمارے کچھ مہربان اس قسم کی افواہیں پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ مقام شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ ویسے بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے پالیسی بیان میں واضح کر دیا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائزریاست ہے، جسے امت مسلمہ کے قلب میں گھسایا گیا ہے اور پاکستان اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ نظریاتی طور پر بھی بانیان پاکستان کی سوچ سے غداری تصور ہو گا۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے فلسطین کے مسئلے پر دوبارہ پاکستان کی دوٹوک پالیسی کا اعلان کیا ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر اسرائیل نواز سرگرمیاں کس کی شہہ پر پاکستان میں پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہ وہی لوگ تونہیں جو پاکستان کے بارے میں نظریات کے حوالے سے کچے ہیں اور ہر قیمت پر صرف منافع خوری کو ہی اپنا مذہب سمجھتے ہیں۔ نہ جانے ان لوگوں کے نزدیک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کون سی مٹھائی مل جائے گی جو فی الحال میسر نہیں۔ یہ اس قسم کی لابیاں ہیں جو برملا یا دبے الفاظ میں کہتی رہتی ہیں کہ کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کو جپھی ڈال لینی چاہیے، اس سے پاکستان کوفائدہ ہوگا۔ یقیناً ہمیں تمام ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی سعی کرنی چاہیے اس سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان بھارت یا اسرائیل سے جنگ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اسرائیل کی طرف سے پاکستان کے خلاف کبھی اس قسم کی کارروائی ہوئی ہے جیسا کہ ایران کے خلاف ہوتی چلی آرہی ہے لیکن ایران ہمسایہ اور بھائی ملک ہے۔ ہم نے امریکہ، مغرب اور بھارت کی مخالفت کے باوجود ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے جس کا مقصد کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں بلکہ پاکستان کو کسی ممکنہ جارحیت سے محفوظ رکھنا ہے، لیکن نہ جانے کیوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پہلے جیسی گرمجوشی نظر نہیں آرہی۔
حال ہی میں امارات نے پاکستانیوں کے لیے ویزے بند کر دیے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق یہ ویزے کورونا وبا کے تناظر میں بند کیے گئے ہیں لیکن ایسے ملکوں کے لیے اب بھی ویزے جاری ہیں جہاں کورونابھرپور تباہی پھیلا رہا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے بھی واضح کیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اس صورتحال میں جب فوجی قیادت اور نہ ہی سویلین قیادت اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حق میں ہے۔ ایک سوچی سمجھی شرارت کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ماحول بنایا جا رہا ہے جوانتہائی افسوسناک ہے۔