ایوانِ اقتدار کی شان و شوکت ہو یا ایوانِ صنعت و تجارت کی قیادت، عدالت عالیہ کی مسند توقیر ہو یا عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ و ارفع منصفین، قومی معیشت کے مصنفین ہوں یا بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے ماہرین، میڈیا کے مبصرین ہوں یا قلم قبیلہ کے مدبرین، سول سروس کے اکابرین ہوں یا عسکری اداروں کے قائدین، وطن عزیز پاکستان کا کون سا شعبہ زندگی ہے جس میں 1864 میں قائم ہونے والی جنوبی ایشیا کی تاریخی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل قابل فخر راوینز موجود نہ ہوں۔
لگ بھگ ایک سو ساٹھ سالہ پرانے اس عظیم تعلیمی ادارے کا ایک قابلِ رشک تاریخی ورثہ ہے جس میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے لے کر پاکستان کے اولین نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام تک، پروفیسر اشفاق علی خان سے لیکر پروفیسر نذیر احمد تک اور صوفی تبسم سے لیکر پطرس بخاری تک جانے کتنی قابلِ تحسین شخصیات ہیں جو اس قابلِ تکریم مادر علمی سے وابستہ رہی ہیں۔ فنون لطیفہ سے لیکر شعر و سخن کے معتبر حوالے اور فن اداکاری سے لیکر ڈرامہ نگاری کے سرخیل کی بڑی تعداد اسی منفرد درسگاہ سے وابستہ رہی ہے۔
پاکستان بھر سے ذہین طلباء و طالبات اور اپنے بچوں کو ایک روشن مستقبل دینے کے خواہاں والدین کی اولین ترجیح گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہوا کرتا تھا کیونکہ یہ ادارہ بلاشبہ ایک کامیاب زندگی اور تابناک مستقبل کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ والد گرامی پروفیسر محمد انور خان جپہ مرحوم نے بھی ہمارے لئے اسی بلند پایہ ادارے کا انتخاب کیا مگر وہ اپنے ادھورے خواب ہمارے پاس امانت چھوڑ کر ستمبر 1986 کی اک ستمگر شام چند لمحات میں اپنے رب کریم کی طرف ہمیشہ کے لئے لوٹ گئے۔
ان خوابوں کی تعبیریں تلاش کرتے ہم سات میں سے چھ بھائی لگ بھگ دو دہائیوں تک اس عظیم الشان درسگاہ کے درودیوار سے وابستہ رہے۔ مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں اپنا پہلا دن آج بھی یاد ہے کہ کس طرح وہ لمحہ میرے زندگی کا اہم سنگِ میل ثابت ہوا اور داخلے کی خوشی میں کئی دنوں تک میرے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے۔ کالج بلیزر زیب تن کرکے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے زندگی کی تمام رعنائیاں اور سارے رنگ ترنگ گورنمنٹ کالج لاہور کے بلند و بالا مرکزی مینار کے سائے میں سمٹ آئے تھے۔
پھراس درگاہ نما درسگاہ کو جیسے کسی حاسد کی چشم بد کھاگئی۔ 2002 میں سب سے پہلے اس ادارے سے اس کا نام چھین لیا گیا جو اس کا سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ اور تاریخی ورثے کا امین تھا۔ اس وقت اسے یونیورسٹی کا درجہ دینے والوں اور پہلا وائس چانسلر مقرر ہونے والی شخصیت نے یہ سوچ لیا کہ شاید اس کے نام میں یونیورسٹی کا لفظ شامل کیے بغیر ادارے کی سربراہی میں رعب و جلال ممکن نہ تھا حالانکہ مغربی دنیا کی کئی ممتاز جامعات کے نام میں یونیورسٹی کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں اس کے باوجود وہ یونیورسٹی چارٹر کے ساتھ اپنی ڈگریاں ایوارڈ کرنے کی مجاز ہیں۔
برطانیہ میں لندن سکول آف اکنامکس، کنگز کالج لندن، امپیریل کالج لندن با ضابطہ طور پر بڑی جامعات ہیں۔ جبکہ امریکہ کی یونیورسٹی ایم آئی ٹی جو بظاہر نام سے میسیچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ہے، دراصل بین الاقوامی سطح پر اک معتبر جامعہ ہے۔ مہذب دنیا میں اداروں کے نام اور تاریخی ورثے کی حفاظت ذاتی خواہشات اور پسند نا پسند پر مقدم ٹھہرتی ہے۔ مگر یہاں گورنمنٹ کالج لاہور کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور بنا دیا گیا جس نام کو راوینز کی واضح اکثریت آج بھی ماننے کے لئے تیار نہیں۔
یونیورسٹی بنتے ہی اس کے معاشی اشاریے مستحکم کرنے کے لئے سیلف فنانس کا ماڈل متعارف کرایا گیا اور یوں قابلیت اور میرٹ کی جگہ دولت نے لے لی۔ جس نے پیسے بھر دیئے وہی ڈگری کا مستحق قرار پایا اور یوں اس عظیم درسگاہ کی جڑیں کھوکھلی کر دیں گئیں اور اب یہ عالم ہے کہ اکتوبر 2023 سے اتنی معتبر جامعہ کا مستقل وائس چانسلر ہی نہیں، یہی حال رجسٹرار اور ٹریژرر جیسے کلیدی عہدوں کا ہے۔
پوری جامعہ میں محض ایک ڈین ہے جبکہ پرو وائس چانسلر، ڈائریکٹر ریسرچ، ڈائریکٹر کوالٹی جیسی اہم تعیناتیاں زیر التوا ہیں اور آخری دو عہدوں پر تدریسی سٹاف اضافی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ اگرچہ جامعہ کی سربراہی کا اضافی چارج نامور ماہر تعلیم اور کہنہ مشق منتظم ڈاکٹر محمد علی شاہ کو سونپا گیا ہے جو پنجاب یونیورسٹی کے کل وقتی وائس چانسلر ہیں مگر اس کے باوجود گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے لئے ایک مستقل سربراہ ادارہ کی اشد ضرورت اپنی جگہ قائم ہے۔
23 فروری کو اولڈ راوینز یونین کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے سیف انور سمیت ہم چار راوینز بھائی اپنی اس عظیم مادر علمی پہنچے تو بہت سے پرانے دوستوں اور ہم جماعت احباب سے ملاقات ہوئی۔ جہاں گزرے زمانوں میں اپنے عہد شباب کی گلاب رتوں کے تذکرے ہوئے وہاں اس عظیم الشان درسگاہ کی زبوں حالی کا رونا بھی رویا گیا۔ برادر محمد خان رانجھا سمیت بہت سے دوستوں نے اصرار کیا کہ میں اپنے کالم میں ہم سب کے مشترکہ محبوب تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور کا نوحہ لکھوں۔ ووٹ ڈالنے کے بعد ہم سرشام بخاری آڈیٹوریم کے سامنے لگائے گئے شامیانے سے نکل کر بیرونی دروازے کی طرف چلے تو بلند و بالا مرکزی مینار سر جھکائے ہمارے سامنے بے بسی کی تصویر بن کر کچھ سوال کر رہا تھا۔
میں نے احساس ندامت سے اس کی طرف دیکھا تو بے ساختہ "آہ! گورنمنٹ کالج لاہور" کے الفاظ میرے حلق سے زبان پر آتے آتے ساکت ہوگئے اور میری آنکھیں بھر آئیں۔ اپنے اربابِ اختیار اور صاحبانِ بست و کشاد سے بلخصوص جو اولڈ راوینز ہیں میری گزارش ہے کہ ہم سب اپنی اس عظیم مادر علمی کے مقروض ہیں، کیا آپ اسے اس کا اپنا اصل نام واپس دلوا کر اپنا قرض لوٹا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اولڈ راوینز یونین کے نو منتخب قائد برادرم اطہر اسماعیل سے بھی بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ ہمیں اپنا گورنمنٹ کالج لاہور واپس چاہیے جبکہ پنجاب کے متحرک اور سرگرم عمل صوبائی وزیر تعلیم کے نام سب موجودہ اور اولڈ راوینز کے جذبات کا ترجمان محمد رفیع سودا کا یہ شعر پیش خدمت ہے۔۔
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی