Saturday, 15 February 2025
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Maa Ki Dua

    Maa Ki Dua

    اتوار کے روز برنلے کی غوثیہ جامع مسجد میں ظہر کی نماز سے قبل امام صاحب نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نماز کے بعد محترمہ نور بیگم کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی جس میں شرکت کے لئے کئی نامور سیاسی اور سماجی شخصیات کے علاوہ لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل، مانچسٹر میں پاکستانی کونسل جنرل طارق وزیر سمیت برطانیہ بھر سے پاکستانی کمیونٹی کی کثیر تعداد مسجد میں موجود تھی جبکہ خواتین کے لئے مرکزی ہال کے ساتھ متصل حصہ میں باپردہ انتظام کیا گیا تھا۔

    نماز ادا ہو چکی اور نماز جنازہ کی تیاری شروع ہوگئی تو امام صاحب نے مرحومہ کے سب سے چھوٹے بیٹے لارڈ واجد خان جو اس وقت برطانوی مرکزی حکومت میں وزارت کا قلمدان بھی سنبھالے ہوئے ہیں کو مختصر خطاب کی دعوت دی۔ ایک بیٹے کے لئے اپنے والدین میں سے کسی کے جنازے کے موقع پر خطاب کرنا انتہائی تکلیف دہ امر ہوتا ہے۔ گزشتہ سال میں خود اس آزمائش سے گزر چکا ہوں جب ہماری والدہ محترمہ کی وفات کے بعد میری برطانیہ واپسی پر اولڈھم کے اسلامک سنٹر میں اجتماعی دُعا مغفرت کا اہتمام کیا گیا تو لارڈ واجد خان سمیت تعزیت کیلئے تشریف لانے والے احباب کا شکریہ ادا کرنا میرے لئے کتنا مشکل ہوگیا تھا اور وہ چند جملے مجھ پر کتنے بھاری پڑ گئے تھے وہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔

    آج برنلے کی غوثیہ مسجد میں برادرم واجد خان اسی کرب سے دوچار نظر آئے۔ وہ جنازے میں شرکت کے لئے آنے والے سب حضرات و خواتین کا شکریہ ادا کرنا شروع ہوئے تو ان کی آواز بھر آئی، الفاظ ساتھ چھوڑ گئے اور مائیک ہاتھ میں کانپنا شروع ہوگیا۔ گفتگو کے آغاز میں ہی انہوں نے اس امر کا برملا اظہار کیا کہ یہ ان کی زندگی کی سب سے مشکل اور کٹھن گفتگو تھی مگر رب کریم کی رضا کے سامنے ہم سب بے بس ہیں، بے اختیار اور لا چار ہیں۔

    لارڈ واجد خان نے اپنے انتہائی مختصر خطاب میں شرکاء کو بتایا کہ وہ ہفتے کے روز سعودی عرب اپنی والدہ کی صحت اور درازی عمر کی نیت سے عمرے کی ادائیگی کے لئے موجود تھے کہ انہیں اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال پر ملال کی اطلاع دی گئی جس کے باعث وہ اگلی پرواز کے ذریعے واپس برطانیہ روانہ ہوئے اور برنلے آن پہنچے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی والدہ محترمہ نے کس طرح اپنی ساری زندگی عبادت میں گزاری اور ا ن کی کامیابی کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہمہ وقت خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کیں۔ وہ دن رات قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہتیں۔

    جس صدق دل کے ساتھ مرحومہ نے عائلی زندگی کے چوون سالوں میں اپنے شوہر چوہدری میاں خان کی خدمت کی اور جس محبت اور شفقت سے اپنے پانچ بچوں کی مثالی تربیت کی اس کا اک زمانہ معترف ہے۔ واجد خان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ان کی ساری کامیابیوں کے پیچھے بلاشبہ ان کی والدہ محترمہ کی عبادات اور شب و روز کی دعائیں شامل ہیں۔ بے شک ماں کی دعا نا ممکنات کی کوکھ سے نئے امکانات پیدا کرکے ہمارے خوابوں کو حقیقت بنا دیتی ہے جس کی جیتی جاگتی مثال خود واجد خان کی میدان سیاست میں مسلسل کامیابیاں ہیں۔

    برنلے جیسے چھوٹے سے قصبے میں ایک وارڈ کونسلر منتخب ہونے سے لیکر برنلے کا میئر بننے تک، اس کے بعد یورپین پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے سے لیکر برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں لارڈ شپ اور لیبر پارٹی کی نو منتخب حکومت میں وزارت کے منصب تک کا حیران کن سفر یقیناً ایک نیک ماں کی بے لوث دعاؤں کا اعجاز ہے جن کا گزشتہ اٹھارہ سال سے میں بھی عینی شاہد ہوں۔

    میں 2007 کے اوائل میں جب برطانیہ پہلی مرتبہ ایک سرکاری دورے پر آیا تو اسی دوران واجد خان سے ملاقات ہوئی جس کے نتیجے میں ان سے چھوٹے بھائی والا رشتہ استوار ہوگیا۔ اس تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں واجد خان کی والدہ نے کلیدی کردار ادا کیا جنہوں نے مجھے روز اول سے اپنے بیٹے کی طرح پیار دیا اور ہمیشہ انتہائی شفقت سے پیش آئیں۔ جلد ہی انکی بے پناہ سادگی، اخلاص اور بے لوث شفقت کا حصار میری بیوی اور بچوں تک پھیل گیا۔

    بعد ازاں جب بھی میرا برطانیہ آنا ہوتا تو وہ مجھے اپنے گھر قیام کرنے پر اصرار کرتیں۔ ان کی شخصیت میں مجھے ہمیشہ اپنی ماں کی وضعداری اور شفقت بدرجہ اتم نظر آتی جس کی بدولت میں واجد خان کے خاندان کا فرد بن گیا تھا اور وہی مقام واجد خان کو ہماری والدہ اور بھائیوں میں حاصل ہوگیا۔ گزشتہ برس اگست میں ہمیں ان کی علا لت کا علم ہوا تو ہم خیریت دریافت کرنے کے لئے لیسٹر سے برنلے ان کے پاس پہنچ گئے۔ بستر علالت پر ہونے کے باوجود جس گرم جوشی سے وہ ہم سب سے ملیں اور جس اپنائیت سے میری اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ خوش گپیاں لگائیں وہ ماں جی کی اعلیٰ ظرفی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ مگر موت کا وقت معین اور اٹل ہے۔

    جنازے کے ادائیگی کے بعد ان کا جسد خاکی برنلے کے نواحی قصبے نیلسن کی والٹن سٹریٹ کے بلمقابل واقع قبرستان لایا گیا۔ تدفین کے دوران متعدد افراد اس عظیم ماں کے ساتھ اپنی نیاز مندی کا اظہار کرتے نظر آئے۔ میرے ساتھ کھڑے پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر افسر بھی ماں جی کی وضعداری اور شفقت کے گرویدہ نکلے۔ وہ بتانے لگے کہ چند برس قبل جب وہ تعلیم کے لئے برطانیہ آئے تو ان کی یہاں واقفیت بہت محدود تھی۔ عید الفطر کے دن قریب آئے تو مرحومہ نور بیگم نے خصوصی طور پر فون کرکے انہیں فیملی سمیت عید پر اپنے گھر مدعو کیا کہ آپ یہ ہر گز نہ سمجھیں کہ یہاں دیارِ غیر میں آپ کا کوئی نہیں، آپ یہ سمجھیں کہ یہ آپ کی ماں کا گھر ہے۔ ان کے پاس عید گزار کر بالکل یہی محسوس ہوا۔

    آج سے دو دہائیاں قبل جب میری پوسٹنگ گجرات ہوئی تو مجھے یہ ہرگز معلوم نہیں تھا کہ کھاریاں تحصیل کے آخری گاؤں بدو جس کے بعد پبی رکھ سرکار کی شکار گاہ شروع ہو جاتی ہے اس دور افتادہ پسماندہ دیہات سے تعلق رکھنے والے چوہدری میاں خان اور ان کے با صلاحیت بیٹے واجد خان کے ساتھ برنلے میں ملاقات ہوگی جو عمر بھر کے تعلق میں بدل جائے گی۔ مگر 2007 میں واجد خان کے ساتھ ملاقات کے بعد جب ان کی عظیم والدہ نور بیگم سے ملا تو مجھے یہ یقین ہوگیا تھا کہ ایسی پارسا، عبادت گزار اور شفیق ماں کی دعا کی بدولت کونسلر واجد خان میدان سیاست میں بے پناہ کامیابیاں سمیٹ کر قومی اور عالمی سطح پر اپنے والدین کا قابلِ فخر بیٹا ضرور بنے گا اور پھر وہ ساری دعائیں رنگ لائیں۔

    تدوین کے بعد غوثیہ مسجد میں دوبارہ دعا مغفرت کا سلسلہ شروع ہوا اور نماز عشاء کا وقت آن پہنچا۔ نماز کی ادائیگی اور الوداعی دعا مغفرت کے بعد میں نے برادرم لارڈ واجد خان سے لیسٹر واپسی کی اجازت طلب کی تو میرے گلے لگ کر وہ کہنے لگے کہ اتنے لوگوں میں دل کھول کر رو یا بھی نہیں جا سکتا۔ میں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور یہ کہہ کر لیسٹر کے لئے رخصت ہوا کہ میں جلد دوبارہ برنلے آؤں گا اور دونوں بھائی دل کھول کر رو لیں گے۔