Friday, 18 October 2024
  1.  Home/
  2. Asad Tahir Jappa/
  3. Dil Se Dil Tak

Dil Se Dil Tak

روز ازل سے انسان کو قوت اظہار اور اس میں بے پناہ تنوع رب عظیم کی طرف سے ودیعت کر دیا گیا ہے، مگر زبان و بیان میں مہارت اور الفاظ میں تاثیر سب کو نصیب نہیں ہوتی۔ محض چنیدہ خوش نصیب ہی فن تقریر و تحریر میں ملکہ حاصل کر پا تے ہیں۔ وہ خوش گفتاری کی نعمت بے پایاں سے اس قدر مالا مال ہو تے ہیں کہ عام سی بات کو اپنے منفرد انداز میں بیان کرکے اسے اچھوتا بنا دیتے ہیں۔

دوسری طرف ایک انتہائی خوبصورت بات مناسب اسلوب اور مطلوبہ الفاظ کی عدم دستیابی کی وجہ سے سطحی سی لگتی ہے۔ خداداد فصاحت وبلاغت اور الفاظ کی جادوگری کے طفیل کئی شعلہ بیان مقررین، نامور شعرائ، بلند پایہ ادباء، شہرہ آفاق خطبا اور منطق واستدلال سے سرشار مفکرین تاریخ کے اوراق میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کروا کر ہمیشہ کیلئے امر ہو چکے ہیں۔ دراصل تاریخ خود بھی تو الفاظ ہی کی محتاج رہتی ہے۔

افلاطون، ارسطو، سقراط اور بقراط سے لیکر والٹائر، جے ایس مل، روسو، گاڈون اور ول ڈیورینڈ تک تمام فلاسفرزکے افکار جلیلہ الفاظ کے خوبصورت پہناوے میں ہی ہم تک پہنچے ہیں۔ ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے اور ان کے آفاقی کردار جولیئس سیزر، کنگ لیئر، میک بیتھ اور ہیملٹ کے دلنشیں مکالمے لوح قرطاس پر نقش ہو چکے ہیں۔ ولیم ورڈز ورتھ، ایس ٹی کولریج، جان کیٹس، پی بی شیلے اور لارڈ بائرن کے اشعار ہمارے قلوب واذہان میں ہمیشہ کیلئے گھر کر چکے ہیں۔ اسلام سے قبل عرب شعراء کی ہجو گوئی، امرالقیس کی غزلیں، شاعر رسول حضرت حسان بن ثابتؓ کی نعتیں، خیام کی رباعی اور شیخ سعدی شیرازی کی حکایتیں خوب صورت لفظوں کی چادر اوڑھے آج بھی شعر وادب کے نقارخانوں میں زندہ ہیں۔

صدیاں گزرنے کے باوجود ولی دکنی، میر تقی میر، میر انیس، میر درد، مرزا غالب، مومن خان مومن اور سودا کے اشعار آج بھی سخنوری کے معتبر حوالے ہیں۔ پنجابی زبان کے صوفی شعراء بابا فریدؒ، خواجہ فریدؒ، میاں محمد بخشؒ، حضرت سلطان باہوؒ، بلھے شاہؒ، شاہ حسینؒ اور وارث شاہؒ کا کلام اب بھی لازوال ہے تو اس کا سبب ان کا منفرد طرز بیان اور الفاظ کی حسن ترتیب ہے ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں۔

امریکی صدر ابراہم لنکن کی خطابت اور تحریر میں سلاست کا زمانہ معترف ہے۔ اپنے جاندار لب و لہجے کے سبب اس نے اپنے ملک میں چار سال پر مشتمل طویل سول وار کے باوجود امریکہ کو متحد رکھا۔ اس کا اپنے بیٹے کے استاد کو لکھا جانے والا خط فکری پختگی اور خوبصورت خیالات کی روانی کے باعث آج بھی ایک مستند حوالہ ہے۔ اسی طرح نپولین، ہٹلر اور سر ونسٹن چرچل کا منفرد انداز تخاطب اپنی مثال آپ تھا۔

امریکہ میں سیاہ فام سول رائٹس کے عظیم علمبردار ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کو خطابت پر ملکہ حاصل تھا اور اس نے ملین مارچ کے موقع پر واشنگٹن میں تاریخی خطاب میں لاکھوں لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا ڈالا تھا اور سیاہ فام امریکی ہم وطنوں کے انسانی حقوق کی جدوجہد میں نئی روح پھونک دی تھی۔ برصغیر پاک و ہند کے نامور سیاسی اکابرین پنڈت جواہر لال نہرو، گاندھی، مولانا آزاد، شیر بنگال مولوی فضل الحق اور مولانا محمد علی جوہر سب کو الفاظ کے استعمال پر دسترس حاصل تھی۔

دوسری طرف شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے سیاسی نظریات اور افکار کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر مسلمانوں میں فکری تحریک اور سیاسی شعور کو اجاگر کرنے کے لئے اور انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے جاندار الفاظ میں للکارا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا معاملہ سب سے الگ تھا کیونکہ وہ انگریزی زبان میں خطاب کرتے تو سامعین ان کے الفاظ کے معانی سے نابلد ہونے کے باوجود الفاظ کی تاثیر اور طہارت پر اندھا اعتبار کرتے ہوئے ایک ایک حرف پر لبیک کہتے۔

یہ امر بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں اتر جاتے ہیں۔ دراصل الفاظ زندگی سے سرشار اور جذبات سے لبریز ہوتے ہیں، اگر انہیں کاٹا جائے تو ان کے وجود سے خون ٹپکنے لگے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب حضرت شاہ ولی اللہ نے مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی کو جاندار الفاظ میں خطوط لکھے تو وہ فوری طور پر حملے کے لئے آمادہ ہوگیا۔ ایک مورخ رقمطراز ہے کہ اگر وہ خطوط پہاڑوں کو پڑھ کر سنائے جاتے تو وہ بھی حرکت میں آجاتے۔ یہ الفاظ کی طاقت اور تاثیر ہی تو ہے کہ ہم اپنے غم بھلا کر ہنسنے لگتے ہیں اور ہنستے مسکراتے اچانک رونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

الفاظ کی حسن ترتیب اور جادوگری کے طفیل کئی مقررین اور لکھاری سامعین اور قارئین کے جذبات کو اپنی مکمل گرفت میں لینے کا فن جانتے ہیں کہ وہ قہقہے لگاتے لگاتے ایک لمحے میں غم کی تصویر بن جاتے ہیں۔ کیا دلچسپ حقیقت ہے کہ آہ اور آہا میں صرف ایک "الف" اضافی ہے مگر اس ایک حرف کی حد فاصل میں دو مختلف دنیاؤں کے رنگ پنہاں ہیں۔ آہ میں شدید کرب ہے، قیامت خیز سانحہ کے زخم ہیں اور غم سے لاچار کسی بے نوا کی سرد آہیں ہیں تو دوسری طرف آہا کے سبب خوشی سے سرشار شخص کے دل میں شادمانی کے شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ الفاظ میں جذبات کی موجودگی کی اس سے بہتر اور ٹھوس مثال نہیں ملتی۔

ابلاغ میں خیال کا اچھوتا پن اور نیت کا اخلاص الفاظ کی جادوگری کا محتاج رہتا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ میرے تجربات، مشاہدات اور معلومات دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بنیں تاکہ وہ اپنی راہوں سے کانٹے ہٹا کر کامیابی حاصل کر سکیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اب میں نے ایک کامیاب شخص کو مدعو کرکے اس کے علم و دانش اور علمی تجربات سے استفادہ کرنے کا سوچا ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے معروف موٹیویشنل سپیکر اور بھائیوں جیسے قاسم علی شاہ برطانیہ کے دورے پر تھے تو وہ میرے گھر پر تشریف لائے تو میرے یوٹیوب چینل کے لئے علمی نشت کے دوران ہم نے اپنی نوجوان نسل کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لئے ممکنہ اقدامات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ وہ میری پاڈکاسٹ کی پہلی مہمان شخصیت بنے اور دل سے دل تک کے اس نئے سفر کا خوبصورت آغاز ہوا۔ ہماری گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ موثر خطابت ہو یا معتبر اسلوب تحریر، ہمیں اظہار کے لئے موزوں الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے اور الفاظ کے موثر استعمال پر دسترس وسیع مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں۔ بقول شاعر۔

جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے