Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Yaadon Ke Dhuen

    Yaadon Ke Dhuen

    حالیہ دورہ پاکستان میں میرا زیادہ تر وقت سرکاری نوعیت کی مصروفیات اور ملاقاتوں میں گزرا جن میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسٹر جہاں میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور پاکستانی یونیورسٹیوں کے درمیان مختلف شعبہ جات میں باہمی تعاون اور اشتراک عمل کے کئی پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ تاہم اسی دوران 23 فروری کو اولڈ راوینز یونین کے انتخابات کے دن اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔

    اس انتخابی عمل کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ الیکشن کے روز بہت سے پرانے دوستوں سے ملاقات ممکن ہو جاتی ہے جن سے برس ہا برس ملن نہیں ہو پاتا۔ چونکہ ہم سات بھائیوں میں سے چھ بھائی لگ بھگ بیس سال مسلسل اس عظیم درسگاہ کے درودیوار کے ساتھ وابستہ رہے اس لئے ہمارے زمانہ طالب علمی کے ایام شباب سے مزین خواب نگر اور اس سے جڑی حسیں یادوں کے ان گنت سلسلے ہیں جو گزرے وقتوں کی راکھ میں ہمہ وقت سلگتے رہتے ہیں اور ہمارے قلب و روح میں اس طرح چپ سادھے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے سر شام درختوں میں خامشی سکون کی چادر میں لپٹی نظر آتی ہے۔

    ہم تین بھائی موٹر وے کو بابو صابو انٹرچینج پر چھوڑ کر بند روڈ سے ہوتے ہوئے سگیاں فلائی اوور کے ذریعے کچہری چوک پہنچے تو دائیں جانب نیو ہاسٹل اپنی روائتی شان بے نیازی سے سر شار نظر آیا جس کی آغوش محبت میں ہم نے کئی ماہ و سال گزارے تھے۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قطب الحق چشتی کے کمرے میں پروفیسر سلیم بٹ مرحوم اپنی پسندیدہ سنگر شمشاد بیگم کے گانے سن کر کس طرح جھوم اُٹھتے اور ہم ان کا دل رکھنے کے لئے با دل نخواستہ داد وتحسین دیتے جاتے کیونکہ ہمیں اس گائیکہ کے سر تال سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر بھی ہم بٹ صاحب کے سامنے اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر انہیں یہی باور کراتے کہ جیسے ہم سب شمشاد بیگم کے دیوانے تھے۔ ہاسٹل میں ہمارا خدمت گار چاچا شفیع بھی یاد آیا جو اپنی برق رفتاری کی وجہ سے شفیع بجلی کے نام سے مشہور تھا۔

    وہ جس تیزی سے کھانے کے وقت میس میں گرما گرم روٹیاں فراہم کرتا ہم چند نوالوں میں غائب کرتے ہوئے اسے مسلسل آوازیں لگاتے رہتے۔ حتیٰ کہ وہ تھک ہار کر مدثر گادھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے پر مجبور ہو جاتا کہ صاحب جی میس رات کو بھی کھلنا ہے۔ وہ سارے احباب بھی یاد آئے جو ہمارا موٹر سائیکل مانگ کر لے جاتے اور اتنا کم پٹرول ڈلواتے کے واپسی پر گھسیٹ کر ہوسٹل تک لے آتے۔ ہمارے دوست مدثر گادھی کو صبح سویرے اٹھ کر ہاسٹل کی راہداری میں اسٹینڈ پر رکھے اخبارات کی شہ سرخیاں باآواز بلند پڑھنے کا شوق تھا۔ اک مرتبہ سیاچن گلیشیئر کے متعلق خبر کو موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں سیا ہ چین گل شیر پڑھ دیا تو تمام سننے والوں نے زور سے قہقہے لگائے۔

    کچہری چوک سے مڑ کر گاڑی تاریخی ناصر باغ کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج کے مرکزی دروازے کی طرف بڑھی تو وہ شامیں بھی یاد آئیں جب ناصر باغ میں اکلوتے بار بی کیو پوائنٹ کے تکے ہماری سستی عیاشی اور خوش گپیاں لگانے کا محور تھے۔ گیٹ سے باہر ہی ہماری مادر علمی کے بلند و بالا مینار نے باہیں پھیلا کر ہمیں اک مرتبہ پھر اپنی آغوش الفت میں سمیٹ لیا اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ مدت سے اداس ہماری را ہیں تک رہا تھا۔ اسی عظیم الشان مینار نے ہی تو ہمیں بڑے خواب دیکھنے کی خو ڈالی اور پھر ان کی تعبیریں تلاش کرنے کی ترغیب بھی دی تھی۔

    مرکزی دروازے سے مین بلڈنگ کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب اوول گراؤنڈ جس میں جب بہار رت کے سبھی رنگ ترنگ نمایاں ہوتے تو ہمارے دل کے سازندے پر جواں جذبات سے سرشار شادمانی کے شادیانے بج اٹھتے اور ہمارے سامنے زندگی کی تمام رعنائیاں انگڑائیاں لینے لگتیں۔ اسی اوول گراؤنڈ کی سیڑھیوں پر سرد موسم کی دھوپ میں نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ مرحوم اپنے مخصوص لباس میں ملبوس شعر و سخن کی محفل سجا لیتا اور اپنے مزاحیہ اشعار اور منفرد اندازِ بیاں سے ایسے سماں باندھ دیتا کہ ہم سب خوشی سے نہال ہو جاتے۔

    ڈاکٹر امبر شہزادہ 2023 میں اولڈ راوینز یونین کے الیکشن والے دن اسی سج دھج سے شریک ہوا مگر اس کے چند روز بعد ہی اک جان لیوا دل کے دورے میں جاں بر نہ ہو سکا اور آسودہ خاک ہوگیا۔ اس رومانوی اوول گراؤنڈ میں جب گورنمنٹ کالج لاہور کی 125 سالہ رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد ہوا تو ہلکے سبز رنگ کے پیرہن میں لپٹی ایک خوبصورت دوشیزہ کی ہمارے اک دوست سے آنکھیں چار ہوئیں۔ سرشام وہ واپس گھر جاتے ہوئے جب پیچھے دیکھنے لگی تو اس کا پاؤں مڑ گیا جبکہ اس کی تکلیف میں چیخ ہمارے دوست کی نکل گئی۔ اس نے اپنے رخسار سے بالوں کو جھٹکا دیا اور مسکرا کر اپنے والدین کے پیچھے دوبارہ چل دی مگر ہمارے دوست کا دل یقیناً اک لمحے کے لئے دھڑکنا چھوڑ گیا تھا۔

    ہم مینار سے آگے بڑھے تو بائیں جانب وہ صنم گارڈن بھی یاد آیا جہاں ہمارا اک اور دوست اپنی محبوبہ سے ملاقات کے دوران روزے کی حالت میں مسلسل شہتوت توڑ کر کھا تا رہا۔ جب بعد میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ ہم سے فتویٰ طلب کرتا رہا کہ اس کا روزہ واقعی ٹوٹ گیا تھا یا کہ کسی شک کی گنجائش موجود تھی۔ بے خودی کے عالم میں بھلا ان لطیف معاملات کا احساس کہاں رہتا ہے۔ وہ دونوں اپنے سچے جذبات میں سنجیدہ تھے اور یقیناً رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جاتے مگر یہ بات ان کے خاندانوں کو قبول تھی اور نہ ان کی قسمت کو منظور۔ بسااوقات چاہت اور قسمت کے درمیان کئی دیواریں حائل ہو جاتی ہیں یا سماج کی جانب سے چن دی جاتی ہیں کہ چاہنے والے چاہ کر بھی اپنی چاہت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔

    تھوڑا آگے بڑھے تو بخاری آڈیٹوریم کے سامنے والے صحن کے دونوں حصوں میں شامیانے لگا کر پولنگ سٹیشن کا ماحول بنایا گیا تھا اور دونوں پینلز کے سپورٹرز اپنے اپنے امیدواروں کے ووٹرز کی پرچیاں کٹوا کر انہیں ان کے متعلقہ پولنگ بوتھ کی طرف گائیڈ کر رہے تھے۔

    مجھے بخاری آڈیٹوریم کے سامنے والی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنے اشعار سناتا ہوا با صلاحیت دوست قمر بشیر بھی یاد آیا جو انہیں دنوں غم حیات کو اپنے سینے سے لگائے ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگیا تھا اور اپنے پسماندگان کو داغ مفارقت دان کر گیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر قمر بشیر آج زندہ ہوتا تو وہ ہمارے عہد کا ایک بلند پایہ شاعر ہوتا مگر اجل کے وار اٹل ہیں۔ وقت کی دھول میں جانے کتنے جان سے پیارے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے دلوں میں ہمہ وقت یادوں کے دھوئیں سلگتے رہتے ہیں۔ بقول شاعر۔

    یادوں کے دھوئیں دل میں سلگتے ہی رہیں گے
    جانے والے تو کبھی لوٹ کے آیا نہیں کرتے