عالمی سطح پر تعلیمی معیار کی جانچ پڑتال کے لئے بنائے گئے مروجہ اصول و ضوابط کے مطابق ہر سال دنیا بھر کی درسگاہوں کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر یونیورسٹیوں کی درجہ بندی بھی کی جاتی ہے۔ بلاشبہ اس دوڑ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے امریکہ اور برطانیہ کی نامور یونیورسٹیوں میں کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے جس میں برطانیہ کی تاریخی درسگاہیں آکسفورڈ، کیمبرج، لندن سکول آف اکنامکس اور کنگز کالج لندن اور امریکہ کے شہرہ آفاق تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی، ایم آئی ٹی، سٹینفورڈ یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیاں شریک ہوتی ہیں۔
اس عالمی رینکنگ میں گزشتہ نو برس سے آکسفورڈ یونیورسٹی بدستور پہلی پوزیشن پر براجمان ہے اور ہر سال اپنے اس اعزاز کا کامیابی سے دفاع کرتی آ رہی ہے۔ ان تعلیمی اداروں نے علم دوست ماحول، جاندار نصاب اور جدید ترین تحقیق کی بدولت اپنے طلباء و طالبات کو خود اعتمادی کی ایسی دولت سے مالامال کیا کہ وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے آگے بڑھتے رہے ہیں۔ انہی قابل تحسین اداروں سے فارغ التحصیل قابل اذہان نے وقت کا دھارا بدلا، سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی نئی راہیں ہموار کیں اور سیاست و معیشت کے میدان میں اتر کر نت نئے امکانات روشن کئے۔
اگر نوبل انعام وصول کرنے والے خوش نصیب افراد کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو ان کی واضح اکثریت کیمرج، آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء وطالبات پر مبنی ہوگی۔ آپ ان درسگاہوں کی ویب سائٹس پر مختلف شعبہ جات اور مضامین کے انفرادی صفحات کا جائزہ لیں تو آپ ان کے فارغ التحصیل طلباء وطالبات کی نمایاں کامیابیاں دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں ان کے المینائی نیٹ ورک میں موجود کتنے افراد اپنے ممالک میں منصب صدارت تک پہنچے اور کتنے وزراء خارجہ اور وزراء اعظم کی مسند توقیر کے مستحق ٹھہرے، یہ سب معلوم ہو جائے گا۔
مگر عالمی سطح پر یہ مقام و مرتبہ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں بلکہ اس کے لئے مسلسل جدید ترین تعلیم، مستند تحقیق اور سائنس وٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے لئے مطلوبہ وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں طلباء و طالبات کی تعلیمی کارکردگی اور تحقیقی سرگرمیوں کے معیار کو عالمی معیار سے ہم آہنگ رکھنے کے لئے ان کی کڑی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ ان تمام بڑے تعلیمی اداروں نے کیریئر کونسلنگ اور سکلز ڈویلپمنٹ کا اک مربوط نظام وضع کر رکھا ہے جس میں تمام طلباء و طالبات کو سی وی بنانے سے لیکر کور لیٹر لکھنے اور انٹرویو میں کامیابی کے لئے باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور مختلف کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کیمپس میں جاب فئرز کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جس میں تمام سرکردہ ایمپلائرز کو مدعو کرکے اپنے طلباء و طالبات کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں۔
بسااوقات بہت سے قابل اور ذہین طلباء و طالبات کو اپنے تعلیمی سفر کے آخری مرحلے میں کئی اداروں سے ملازمت کی پیشکش کر دی جاتی ہے اور وہ ان سے باقاعدہ تحریری معاہدہ بھی طے کر لیتے ہیں۔ ڈگری کے بعد بھی فارغ التحصیل طلباء و طالبات کے کوائف جمع کرنے اور ان کے ساتھ مسلسل روابط استوار کرنے کی ذمہ داری الیمنائی آفس کے سپرد کی جاتی ہے۔ اس دفتر سے وابستہ افراد تمام فارغ التحصیل طلباء و طالبات سے ای میل پر رابطے میں رہتے ہیں اور اگلے چھ ماہ تک ان سے روزگار کے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
اس عمل سے ایک طرف یہ تعلیمی ادارے اپنے طلباء و طالبات کے مستقبل کے لئے فکرمند رہتے ہیں تو دوسری جانب انہیں مارکیٹ میں اپنی ڈگری کی اہمیت اور ریلیوینس کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ جس مضمون کی گریجویٹ ایمپلائمنٹ کی شرح نوے فیصد سے کم ہو جائے اس کے متعلق یونیورسٹی انتظامیہ پریشانی میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مضمون جاب مارکیٹ میں اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور جسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال میں متعلقہ انڈسٹری کے ذمہ دار افراد سے مشاورت کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور ان کی سفارشات کے روشنی اس مضمون میں ضروری تبدیلیاں متعارف کروا کر اسے جدید خطوط پر گامزن کر دیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے اور دنیا بھر میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کیلئے تمام نامور یونیورسٹیوں کو اس کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ورنہ اگر کسی ادارے کی دی گئی ڈگری جاب مارکیٹ میں بے تو قیر ہو جائے اور اس کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات مناسب روزگار حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں تو وہ درسگاہ عالمی منظرنامے میں ٹاپ پوزیشن کی دوڑ سے باہر ہو جائے گی اور اس کا تنزلی کا سفر شروع ہو جائے گا جبکہ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے دیگر نامور یونیورسٹیاں پہلے سے تاک میں ہوتی ہیں اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر وہ خود کو بہتر متبادل ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ذہین اور محنتی طلباء و طالبات اپنے خوابوں کی تعبیریں تلاش کرنے کے لئے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپ کیطرف سفر اختیار کرتے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان اداروں میں داخلہ کے ساتھ ہی ان کا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے اور یوں وہ غم روزگار کے اضطراب سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اب ذرا اک طائرانہ نظر ہم پاکستانی ہائیر ایجوکیشن سیکٹر پر ڈالیں اور پتہ چلائیں کہ کیا ہماری یونیورسٹیوں میں اپنے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کا ریکارڈ مرتب کرنے اور بعد ازاں ان سے رابطے کا کوئی مربوط نظام وضع کیا گیا ہے جس کے ذریعے الیمنائی آفس ان سے روزگار کے متعلق معلومات حاصل کر سکے اور جس کی روشنی میں جاری کی گئی ڈگریوں کی جاب مارکیٹ میں قدرو منزلت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
ہمارے ہاں گریجویٹ ایمپلائمنٹ ریشو اور اس کی روشنی میں کورسز میں بہتری کا شاید کوئی مستند نظام موجود نہیں۔ اس کے برعکس ہم ہر سال اشفاق احمد مرحوم کے الفاظ میں محض اپنے بچوں کو ڈگری کی شکل میں ان کے اخراجات کی رسیدیں ہی جاری کرتے ہیں۔ اب اگر وہ رسیدیں جاب مارکیٹ میں رد کر دی جائیں اور ڈگری حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کی واضح اکثریت اپنی قابلیت کی بدولت روزگار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو ان کے پاس جمع شدہ ڈگریاں دراصل جعلی رسیدیں ہیں جو سال ہا سال کی محنت اور بھاری رقوم کے عوض انہیں تھما دی گئیں ہیں اور جنہیں لے کر وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔