پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ جیت گئی، حکمران اتحاد ہار گیا۔ ضمنی الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو سینیٹ الیکشن میں بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے متفقہ امیدوار یوسف رضاگیلانی پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار حفیظ شیخ کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔
قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والا یہ الیکشن حقیقت میں حکومت کے خلاف کھلا ریفرنڈم تھا، جس میں حکومتی اراکین نے اپنی ہی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور پانچ اراکین قومی اسمبلی نے اپنے ضمیر کی آواز پر پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا، حکومتی وزراء سمیت سات اراکین نے اپنے امیدوار حفیظ شیخ کو ووٹ دینے کے بجائے اپنا ووٹ ضایع کردیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے لیے یہ صورتحال کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھی۔
اسی بوکھلاہٹ کے باعث سینیٹ الیکشن سے اگلے ہی روز قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کردیا، انھوں نے یہ اعلان اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آنے والے شدید دباؤ کے نتیجے میں کیاکیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا موقف تھا کہ جب قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سے آپ کی عددی اکثریت، اقلیت میں بدل چکی ہے تو یہ ہی آپ پر اپنے اراکین اسمبلی کا عدم اعتماد ہے۔
اس لیے مزید کسی عدم اعتماد کی تحریک لانے کی ضرورت نہیں، اخلاقی طور پر آپ اس عہدے پر مزید رہنے کا جواز کھوچکے ہیں لہٰذا استعفیٰ دیں اور گھر جائیں، لیکن وزیر اعظم نے نہایت چالاکی سے از خود اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرکے اپوزیشن کے اس دباؤ کو کائونٹر کرنے کی کوشش کی۔ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت بہت سے آئینی و قانونی امور کے ماہرین، سیاسی امور کے ماہرین نے وزیر اعظم کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اسی بنیاد پر پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی کے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا، یوں حکومت نے جس ریس کا اہتمام کیا تھا اس میں ایک ہی گھوڑا میدان میں تھا، اس لیے ناکامی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔
وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کے مذکورہ اجلاس میں 178ووٹ حاصل کیے جو 2018کے مقابلے میں دو ووٹ زیادہ بتائے جاتے ہیں، ان کا ایک ووٹ فیصل واوڈا کا تھا جنھوں نے نااہلی سے بچنے کے لیے سینیٹ الیکشن والے دن استعفیٰ دے دیا تھا لیکن ان کی چالاکی دیکھیں کہ استعفیٰ دینے سے پہلے انھوں نے قومی اسمبلی میں اپنا ووٹ کاسٹ کردیا تھا۔ پھر قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیتے ہی موصوف سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔ وزیر اعظم عمران خان جس تبدیلی کا دعویٰ کرتے تھے لگتا ہے وہ یہی تبدیلی ہے۔
فیصل واوڈا کا ووٹ بھی شامل کرلیا جاتا تو بتائے گئے مجموعی ووٹوں میں مزید ایک ووٹ کا اضافہ ہوجاتا۔ ووٹوں کی تعداد سے یاد آیا پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے جن اراکین کو بکاؤ مال کہا تھا ان سے دھونس اور زبردستی سے ووٹ لیا گیا۔ پارلیمنٹ اجلاس سے قبل اراکین کی نگرانی کی گئی، ڈرون کیمروں سے ان کی فوٹیج بنائی گئی، پہلی بار کسی جماعت کے سربراہ پر اس کے اپنے ہی اراکین نے عدم اعتماد کردیا۔
بلاول بھٹو اور محسن داوڑ نے الزام لگایا ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیتے وقت حکومتی اراکین کی تعداد بھی پوری نہیں تھی، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کرنی چاہیے۔ دستخط کرنے والے اراکین کی ویڈیو منگوائی جائے اور چیک کی جائے، کتنے اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا اور کیا کوئی ایسا شخص تو شامل نہیں تھا جو قومی اسمبلی کا رکن تو نہ ہو لیکن وہ اس عمل کا حصہ بنا ہو۔ ان الزامات نے شک کی تلوار لٹکا دی ہے، اب جب تک اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جاتی تب تک ناصرف یہ تلوار لٹکی رہے گی بلکہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین کشیدگی میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا رہے گا، جو کسی بھی صورت جمہوریت کی بقا کے لیے درست نہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین اگلا محاذ ایوان بالا میں لگنے جارہا ہے جہاں فریقین اپنا اپنا چیئرمین لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، حکومت نے صادق سنجرانی کے سر پر دست شفقت رکھا جب کہ پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی ہوں گے، اگر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی حکومت کی جانب سے وہی طرز عمل اپنایا گیا جو قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنایا گیا تھا تو پھر بپھری ہوئی اپوزیشن کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی، پانچ سو روپے کلو مرغی کا گوشت خریدنے والے عوام کے غصے کا لیول کیا ہوگا یہ اس سے وزیر اعظم کو یقیناً آگاہ کیا جاتا ہوگا۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کو دانش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت کو اڑھائی سال گزر چکے ہیں لیکن وزیر اعظم آج تک کنٹینر سے نیچے نہیں اترے، اعتماد کا ووٹ لے کر وہ جس طرح اپوزیشن رہنماؤں سے متعلق گفتگو کررہے تھے۔ حکومت میں شامل صاحب بصیرت لوگ آگے آئیں، وزیر اعظم کو سمجھائیں۔ اڑھائی سال سے لوگوں کے یہ بات سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ میں این آر او نہیں دوں گا اور لوٹی ہوئی دولت واپس لائوں گا۔ اڑھائی سال گزر گئے باقی بھی گزر جائیں گے لیکن اس طرح آپ ایک پائی نہیں لاسکتے۔ اب لوگوں کو اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کو محض انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ضمنی اور سینیٹ الیکشن سے تحریک انصاف نوشتہ دیوار پڑھ لے۔
آخر میں پیر کو پارلیمنٹ کے باہر اپوزیشن لیڈروں پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا حملہ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر مختصر سی بات کرتے ہیں۔ اس روز جس وقت وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں "وکٹری اسپیچ" دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے ریاست مدینہ کا سب سے پہلا سبق اخلاقیات تھا، عین اسی وقت پاکستان تحریک انصاف کے جتھے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال و دیگر پر حملہ آور تھے، مریم اورنگزیب سے بدسلوکی کررہے تھے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کے ہاتھوں سے اب مخالف سیاسی جماعت کی خواتین بھی محفوظ نہیں رہیں!
ملک بھر کا الیکٹرانک و سوشل میڈیا یہ مناظر دکھا رہا تھا۔ کسی مہذب معاشرے میں اس قسم کی حرکت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ بدتمیزی، بد تہذیبی اور بدسلوکی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی شناخت بن چکی ہے، خدارا پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں چھوڑ کر پہلے اپنے ورکرز کی تربیت پر زور دیں، ان کے اس پرتشدد رویے سے میرے ملک کی سیاست آلودہ ہوچکی ہے، اب اسے مزید آلودہ ہونے سے بچائیے، اس میں سب سے زیادہ فائدہ آپ کا اپنا ہے۔