Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sihoni Agenda Aur Millat Islamia

Sihoni Agenda Aur Millat Islamia

رہنمائی کے لیے قرآن سے بڑھ کر کوئی کلام نہیں، کیونکہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ اس رب العرش العظیم کاکلام ہے جو تمام جہانوں کاخالق و مالک ہے، اسی لیے یہ کلام بے عیب ہے لاریب ہے، جس کا ایک ایک لفظ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے۔

اسی کلام مجید کی سورئہ المائدہ کی آیت نمبر 51میں دوجہانوں کے پروردگارنے قیامت تک آنے والے ایمان والے مسلمانوں کو بتادیا ہے "اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انھیں میں سے ہے، اﷲ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔" اس واضح ارشاد کے بعد تو کوئی ایمان والا اﷲ رب العزت کی اس تنبیہہ کے خلاف نہیں جاسکتا اور جو اس راستے پر جائے گا، اسے خود اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے۔

ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ قوم یہود کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے اور روز آخر سے کچھ پہلے تک جاری رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہود کی فطرت کے منافی ہے۔ انھوں نے اپنی قوم، زبان اور نسل سے آنے والے انبیاء علیہم السلام کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا، آج کی دنیا کو کیسے چین سے بیٹھنے دے گی، یہود نے انبیاء علیہم السلام کی نافرمانیاں کیں، انھیں ستایا، ان کا مذاق اڑایا حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام کو قتل تک کیا، پیکر عفت و عصمت حضرت مریم علیہ السلام پرتہمت لگائی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو پھانسی دینے کی کوشش کی۔

نبی آخر الزماں ﷺ کے ساتھ بار بار معاہدے کیے اور ہر مرتبہ ان کو توڑ کر عہد شکنی اور غداری کی۔ دور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہود کو مسلمانوں کے برابر اور بعض مواقع پر ان سے بھی زیادہ حقوق حاصل رہے لیکن وہ اپنی فطرت سے باز نہ آئے اور انھوں نے اسلامی سلطنتوں کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹا اور انھیں برباد کیا۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں، اندلس کی اسلامی سلطنت سے لے کر سقوط خلافت عثمانیہ تک، ارض حرمین میں غیر مسلم افواج کے پڑاؤ سے لے کر عرا ق کے ایٹمی پلانٹ تک، افغانستان میں تورا بورا کے پہاڑوں پر بمباری سے لے کر پاکستان میں ہونے والی بد ترین دہشت گردی تک اسلامی دنیا کی ہر تباہی اور ہر سازش کے پیچھے یہود ہی نظر آئے گا۔

یہودیوں کو ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے سرزمین مقدس سے دو ہزار سال پہلے نکال دیا گیا تھا لیکن 1948 میں ایک بار پھر انھیں یہاں لاکرآباد کیا گیا بلکہ اسرائیل کے نام کا خنجر عربوں کے سینے میں گھونپ دیا گیا۔ یہودیوں کا مسئلہ یہ نہیں کہ دنیا انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے دے، نہ ہی وہ یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین میں انھیں ان کی آبادی کے لیے ایک خطہ زمین مل جائے، بلکہ ان کا ایک منصوبہ یہ ہے کہ وہ عالمی یہودی تنظیموں کے ذریعے بیت المقدس کی جگہ ہیکل سیلمانی قائم کریں جس کے لیے وہ بے تاب و بے چین ہیں، ان کی دوسری خواہش دنیا کے ہر غیر یہودی کو اپنا غلام بنانا ہے، وہ فلسطین ہی نہیں پوری دنیا کو یہودی ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہی وہ گریٹر اسرائیل کے خاکے میں حقیقت کے رنگ بھرنا چاہتے ہیں، جس میں عراق، شام، اردن، شمالی سعودی عرب، جنوبی ترکی، مصر کا صحرائے سینا شامل ہوں گے۔

یہ ہیں وہ حقائق جس کی بنیاد پر صیہونی ریاست پاکستان سمیت بیشتر مسلم ممالک کے لیے ناقابل قبول ہے اسی لیے ان ممالک نے آج تک اسے تسلیم نہیں کیا، شمالی کوریا اور وینزویلا ایسے کئی غیر مسلم ممالک بھی یہودی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان عزائم کا فہم رکھنے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنا اس ناپاک منصوبے میں یہودیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے مترادف ہے، اب متحدہ عرب امارت نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔

ایک بار پھر فلسطینیوں پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دشمن عیار بھی ہے، چالاک بھی ہے اور سنگدل بھی، دوست غافل بھی ہیں، بے نیاز بھی ہیں اور چشم پوش بھی!.نہ دشمن اپنی کھال میں آتا ہے نہ دوست اپنے خول سے باہر نکلتے ہیں، جفاکاروں کی جفائیں بڑھتی جا رہی ہیں اور غم خواروں کی بے نیازیاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آرہیں؟ فلسطینی کس کو اپنا دوست سمجھیں، کسے غم خوار مانیں؟ وہ آج ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں انھیں دوست، دشمن میں فرق کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

اوپر سے امریکی صدر ٹرمپ کے مسلسل ان بیانات نے فلسطینیوں کو ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کو مزید تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ مزید کئی مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے ہیں گوکہ کویت اور دیگر عرب ومسلم ممالک سے آنے والے ردعمل نے ان مسلم ممالک کے بڑھتے ہوئے قدموں کو رکنت پر مجبور کردیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ بڑے عرب اور غیرعرب اسلامی ممالک کو دو ٹوک انداز میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا، لیکن ابھی خطرہ ٹلا نہیں، جو لابیاں اس حوالے سے کام کررہی ہیں، اس سے اضطراب میں اضافہ ایک فطری عمل ہے۔

اس گمبھیر صورتحال میں چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، اس اندھیرے میں صرف ایک امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے اور وہ ترک صدر رجب طیب اردگان ہیں، سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مصطفی کمال اتاترک نے جس طرح مغرب کی قربت ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر ترکی کو اسلام سے دور کیا اور اور مغرب کی زنجیروں میں جکڑ دیا، اسی کی مغرب زدہ پالیسیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو تسلیم کیا گیا۔ آج رجب طیب اردگان ترکی کومغرب کی اس غلامی سے نکال کر کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے کوشاں ہیں، اس مرد مجاہد نے دو ٹوک الفاظ میں یو اے ای کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے۔

اردگان کا یہ رویہ بتا رہا ہے کہ اس کے دل میں اسرائیل کے لیے قطعی طور پر نرم گوشہ نہیں ہے، یہی امت مسلمہ اور فلسطینیوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ رجب طیب اردگان سورئہ المائدہ میں اﷲ رب العزت کی جانب سے پیش کی گئی تنبیہہ کو اچھی طرح جان چکے ہیں، ان کے الفاظ کی شدت اور باڈی لینگوئج اس بات کی واضح دلیل ہے، وہ اس بات کو بھی سمجھ چکے ہیں انسان جب تک اپنے دشمن کو نہیں پہچانتا اس وقت تک اس کے راستے کی رکاوٹیں ختم نہیں ہوسکتیں، وہ ترقی کی جانب ایک قدم بڑھائے تو دشمن کی چالیں اسے دس قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں گی۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ قوم یہود امت مسلمہ کی وہ نادیدہ دشمن ہے جو خود تو مسلمانوں کی جوابی دشمنی سے ڈرتی ہے لیکن کسی بھی مرحلے پر دشمنانہ رویہ ترک کرنے کو تیار نہیں۔ دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر وار کرنے کی عادت اس کی جبلت میں شامل ہے۔ اس لیے ابھی سنبھلنے کا وقت ہے، پانی سر سے نہیں گزرا۔ جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے یا اس کی تیاری کررہے ہیں، وہ اپنے فیصلے پر غور کریں اور اسرائیل کے معاملے پر اسی مقام پر واپس آجائے جہاں پوری ملت اسلامیہ کھڑی ہے۔ او آئی سی عالم اسلام کا واحد متفقہ پلیٹ فارم ہے، لیکن مسئلہ کشمیر ہو، مسئلہ فلسطین ہو یا امت کو درپیش کوئی اور معاملہ، اب تک عالم اسلام کو او آئی سی نے مایوسی کے سو اکچھ نہیں دیا، اب اسے بھی اپنا رویہ بدلنا پڑے گا ورنہ ہر بار نیا بلاک بنانے کی کوشش ناکام نہیں ہوا کرتی۔