واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ تبدیلی کو بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کا سامنا ہے، یعنی تبدیلی کو تبدیلی کا سامنا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج ہوں یا الیکشن کمیشن کی جانب سے این اے 75 ڈسکہ کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف فیصلہ یا پھر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی رائے، سب کے سب تبدیلی کو لگے وہ زور دار جھٹکے ہیں جو نہایت سست رفتاری سے لگے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے عوام اور ریاستی ادارے ہم زبان اور یک آواز ہیں، فی زمانہ استعمال ہونے والی عام اصطلاح میں بولا جائے تو عوام اور ریاستی ادارے ایک پیج پر دکھائی دے رہے ہیں۔ بات 19فروری کو ہونے والے ضمنی انتخابات سے شروع کرتے ہیں، اس روز دو قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر پولنگ ہوئی، جن میں این اے 45کرم جہاں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ملک فخر زمان اور جمعیت علماء اسلام کے امیدوار حاجی سید جمال مدقابل تھے۔
سابق مسلم لیگی پارلیمنٹرین سید افتخار الحسن شاہ المعروف ظاہرے شاہ کے انتقال سے خالی والے والی قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 75ڈسکہ میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار الحسن شاہ کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کے ساتھ تھا، پی پی 51 وزیر آباد میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار طلعت محمود کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری محمد یوسف کے ساتھ تھا جب کہ پی کے 63 نوشہرہ پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار محمد عمر کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اختیار ولی سے ہوا۔
پی پی 51وزیر آباد اور پی کے 63 نوشہرہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا جب کہ این اے 45کرم کی سیٹ پر پی ٹی آئی امیدوار کامیاب ہوئے تاہم جے یو آئی نے دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا ہے۔
این اے 75ڈسکہ کے الیکشن کے چرچے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہورہے ہیں، یہ ضلع سیالکوٹ کی وہ سیٹ ہے جہاں سے ہمیشہ مسلم لیگ ہی کامیاب ہوئی، گزشتہ عام انتخابات میں بھی ضلع سیالکوٹ سے پاکستان تحریک انصاف کو قومی و صوبائی سیٹیوں میں سے کسی ایک پر کامیابی نہیں ملی، اسی لیے سیالکوٹ کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔
ظاہرے شاہ کے انتقال سے خالی ہونے والی اس نشست پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ان کی بیٹی نوشین افتخار الحسن شاہ کو میدان میں اتارا گیا، ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی تھے جو مشرف دور میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے بعد ازاں انھیں وزیر مملکت برائے ریلوے کا قلمدان سونپا گیا تھا۔ 19فروری کے ضمنی الیکشن کے دوران مبینہ طور پر حکمران جماعت نے حلقے کے لوگوں کو جو تبدیلی دکھائی وہ قیام پاکستان سے لے کراب تک کبھی دکھائی نہیں دی۔
پورا حلقہ بالعموم اور ڈسکہ شہر بالخصوص میدان جنگ بنا ہو اتھا، ڈسکہ کے لوگوں نے گولیوں کی بوچھاڑ میں پولنگ میں حصہ لیا، پولنگ اسٹیشنوں پر دن بھر لڑائی، مارکٹائی کا سلسلہ جاری رہا، پرتشدد واقعات میں دو قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ پی ٹی آئی، پولیس اور انتظامیہ سب ایک پیج پر دکھائی دے رہے تھے اور سب کا مقصد خوف وہراس پھیلا کر ووٹرز کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنا تھا کیونکہ ٹرن آؤٹ جتنا کم ہوتا اس کا اتنا فائدہ حکمران جماعت کے امیدوار کو پہنچتا، اس پلان کی ناکامی کے بعدپلان بی پر عمل شروع ہواجس کے تحت 23پولنگ آفیسرز کو غائب ہوگئے جو اگلی صبح آر او آفس ایک ساتھ پہنچے، یوں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری کی ساری دال ہی کالی ہے۔ لیگی امیدوار نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا اورالیکشن کمیشن میں درخواست دائر کردی، تحقیقات کے بعد الیکشن کمیشن نے این اے 75کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے 18مارچ کو دوبارہ پولنگ کا اعلان کردیا۔
حکمران جماعت کے جو وزراء اس فیصلے سے قبل بڑھ بڑھ کر کہہ رہے تھے کہ الیکشن کمیشن جو فیصلہ کرے گا ہمیں وہ قبول ہوگا ہم اسے چیلنج نہیں کریں گے، شائد وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ یہ ضمنی الیکشن نہیں بلکہ 2018 کا جنرل الیکشن ہے۔ لیکن جونہی الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا تو اعتماد کی چڑیا کھیت چگ کر اڑ چکی تھی، وہ وزراء جو ہر فیصلے کو ماننے کو تیار تھے وہی فیصلے کے خلاف سیخ پا تھے اور اسے چیلنج کرنے کی باتیں کررہے تھے۔ اگر حکمران جماعت اس ملک میں واقعی حقیقی تبدیلی لانا چاہتی تھی تو اسے اس فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حکومت کو الیکشن کمیشن میں اس سبکی کے بعد این اے 45کرم کے الیکشن نتائج پر بھی سبکی کا خطرہ ہے وہاں بھی دھاندلی کے سنگین الزامات ہیں اور جے یو آئی مضبوط موقف اپنائے ڈٹ کر کھڑی ہے۔
نوشہرہ جسے پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ قرار دیا جاتا تھا وہاں سے شکست بھی حکومت کے لیے بہت بڑی سبکی کا باعث بنی ہوئی ہے، وزیراعظم عمران خان نوشہرہ میں پارٹی کے اندر اختلافات اور حالیہ ضمنی الیکشن ہارنے پر پریشان ہیں اور اسی وجہ سے انھوں نے چند روز قبل پشاور میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو جمع کیاتھا، یہ اجلاس وزیر اعظم کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن گیاکیونکہ اس اجلاس میں صوبہ خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے سات قومی اور پانچ صوبائی اسمبلی کے اراکین غائب تھے۔
لگتا ہے یہاں بھی ڈسکہ کی طرح دھند زیادہ تھی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2018 کے ضمنی الیکشن میں بھی پی ٹی آئی نے ایسے ہی پارٹی اراکین کا اجلاس بلایا تھا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ پارٹی کی جانب سے سینیٹ الیکشن لڑنے والوں کو ووٹ دیں گے تو سب نے سر ہلایا تھا اور جب الیکشن کے نتائج آئے تھے تو پتا چلا کہ پی ٹی آئی کے بعض اراکین بک گئے تھے، جو اراکین بکے تھے ان میں وہی سر ہلانے اور یقین دہانی کرانے والے سب سے زیادہ تھے۔ گزشتہ ہفتہ ہونے والے اجلاس میں جو لوگ غیر حاضر تھے ان میں سے بہت سے اراکین کے بارے میں پہلے سے ہی پھسل جانے کی اطلاعات آرہی تھیں۔ پھر ٹی وی چینلز پر جن اراکین کو روپوں سے بھرے بیگ وصول کرتے دکھایا جارہا ہے، وہ پاکستان کی جمہوریت کو تبدیلی ہی کا تو تحفہ ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف جس تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی اور پھر اقتدار میں آکراس تبدیلی نے عوام کا جو حال کیا ہے، خدا کی پناہ۔ تحریک انصاف نے ساز باز کرکے جس طرح سینیٹ الیکشن میں صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوایا تھا آج خود وہ خوفزدہ ہے کہ کہیں اسی کے ساتھ یہ کھیل نہ کھیلا جائے۔
قارئین سینیٹ الیکشن کے نتائج پر اگلے کسی کالم میں بات ہوگی، سر دست ہم اس خوف کی بات کرتے ہیں جس نے حکمران جماعت کو سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے بجائے شو آف ہینڈ سے کرانے کی تجویز دینے پر مجبور کیا، حکمران اپنے ساتھ کسی انہونی سے بچنے کے لیے پہلے پارلیمنٹ گئے، وہاں دال نہ گلی تو سپریم کورٹ سے رائے مانگ لی اور ساتھ ہی صدارتی آرڈیننس جاری کرادیا گیا، پیر کو سپریم کورٹ نے خفیہ رائے شماری برقرار رکھنے کی رائے دی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حکومت کے لیے سبکی ہے۔ اسی لیے لگتا ہے کہ اب تبدیلی کو بھی کسی تبدیلی کا سامنا ہے۔