Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ache Ki Umeed Kaise Rakhen?

Ache Ki Umeed Kaise Rakhen?

پاکستان کے پائوں دلدل میں دھنسے ہیں، آگے بڑھنے کے لئے جونہی زور لگاتے ہیں، دلدل اور نیچے کھینچ لیتی ہے۔ آپ جانتے ہیں اس دلدل کے اندر کون سا کیچڑ ہے جو ہمیں پاتال میں لے جا رہا ہے۔ ناسمجھی، اپنے مستقبل سے لاتعلقی اور عقل سے دشمنی۔

ایک پروگرام نشر ہوا، وفاقی وزیر فیصل واوڈا وزیر اعظم عمران خان کو خدائی اوتار بتا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ خدا کے بعد عمران خان ہے جو ملک کو بچا سکتا ہے، فیصل واوڈا نے کچھ اور الفاظ کہے تھے جنہیں نقل نہیں کیا جا سکتا، افسوس اور مذمت کی جا سکتی ہے۔ پنجاب کے وزیر فیاض چوہان اپنی جارحانہ بیان بازی سے اکثر تنازعات کو دعوت دیتے ہیں۔ ایک بار غیر ضروری طور پر اداکارہ نرگس پر تبصرہ کر دیا، پھر صحافیوں کو اوقات یاد دلانے کی بات کی، پھر کشمیریوں کو غصہ دلایا اور چند روز قبل محمود اچکزئی کی اردو کے مقابلے میں علاقائی زبانوں کی حمایت پر سیخ پا ہو کر پنجابی کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا بیان داغ دیا۔ چوہان صاحب معلوم نہیں کون سے پنجابی ہیں جو اپنی مادری زبان کی اس پیرائے میں توہین کر رہے ہیں۔

کوئٹہ میں جلسہ ہوا۔ ایک مولوی صاحب کو بڑی مشکل سے تقریر کرنے کا موقع ملا۔ بڑے باپ کے بیٹے ہیں، فرمایا بلوچستان کو آزاد ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ تنقید ہوئی تو بولے میڈیا نے سیاق و سباق سے ہٹ کر موقف پیش کیا۔ ساری تقریر کی ویڈیو موجود ہے۔ حضرت بتا دیں میڈیا نے کہاں ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ جو کہا صاف کہا، سب نے سنا، بلوچستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر یہ بات کہی گئی۔ اس لئے اس کا ایک خاص مطلب ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری ایک سیاسی کارکن ہیں، ایک بار میڈیا سے بات کر رہی تھیں، فرمایا پلوامہ میں 40بھارتی شہید ہوئے۔ نواز شریف کی ایک تازہ ویڈیو کسی دوست نے بھیجی لندن میں اپنے فلیٹ کے گیٹ پر کھڑے ہیں۔ چھ سات رپورٹر اردگرد ہیں، اکثر کو میں نہیں جانتا لیکن جس کی آواز سنائی دی وہ میرے ایک سابق ساتھی کی تھی۔ نواز شریف کہہ رہے تھے کہ میرے بیانات کو ٹوئٹر، یوٹیوب اور اپنے چینلز پر ڈالیں گے، سب رپورٹر وعدہ کر رہے تھے کہ جی ہم ایسا کریں گے۔ رپورٹر سیاسی کارکن بن چکے تھے۔

عجیب بات ہے کہ جب سے مسلم لیگ ن اقتدار سے محروم ہوئی ہے اس کے حامی بعض صحافیوں کو غیر ملکی خبررساں اداروں میں کام ملنے لگا ہے۔ یہ لوگ جو بات اپنے اخبار یا چینل پر نہیں کہہ سکتے وہ ان بین الاقوامی میڈیا ہائوسز پر کہہ رہے ہیں، لائن وہی ہوتی ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان پاکستان میں جمہوری اقدار اور روایات کی بالادستی کے لئے جنگ لڑ رہا ہے۔ ہر خبر یا کالم میں کوئی ایسی بات بیان کر دی جاتی ہے جو اسٹیبلشمنٹ میں گھسے چوہے حکومت کی کمزوری تلاش کر کے انہیں پہنچا دیتے ہیں۔ فرض کیا نواز شریف کا خاندان اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں موجودہ حکومت کے لئے مسائل کھڑے کر دیتا ہے، دنیا کو ثابت کر دکھاتا ہے کہ پاکستان میں درپردہ حکومت کسی اور کی ہے، یہ تاثر بھی مستحکم کر دیتا ہے کہ عمران خان اور ان کی کابینہ نااہل ہے تو پھر جو نتیجہ نکلے گا وہ کس شکل کا ہو گا؟

لیڈر شپ کی سائنس بڑی دلچسپ ہے، معاشرہ قانون شکن ہو گا تو لیڈر سب سے بڑا قانون شکن نکلے گا۔ معاشرہ مہذب، قانون پسند اور اپنے ملک سے پیار کرنے والوں پر مشتمل ہو گا تو ان میں سے ابھرنے والا ہی لیڈر ہو گا۔ ایک جائزہ لینا چاہیے کہ ہمیں جس جمہوریت کا رنگا برنگا خواب دکھایاجاتا ہے وہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں پائی جاتی ہے۔ وہاں فرد آزاد ہے، اتنا آزاد کہ کئی علاقوں میں برہنہ پھرتا ہے، لیکن اسے کہیں بھی قانون توڑنے کی اجازت نہیں، ننگا آدمی جب کسی کی چار دیواری میں گھسے گا اسے پکڑ لیا جائے گا۔ ریاست کو دھوکہ دے گا تو گرفتار کر لیا جائے گا، منی لانڈرنگ ہو گی تو کوئی ادارہ یا فرد اسے رعایت نہیں دے سکیں گے۔ قانون شکنی پر معافی نہیں ملتی۔ وہاں کوئی ڈونلڈ ٹرمپ ہی کیوں نہ ہو زبان سے کچھ کہے، قانون نہیں توڑ سکتا۔ ان معاشروں میں معیاری لیڈر شپ پرورش پاتی ہے۔ ہم احمقوں، بے لحاظوں اور بدزبانوں کو لیڈر بناتے ہیں۔ ان سے توقع کرتے ہیں کہ ملک سنواریں گے، قرض اتاریں گے۔ انہیں عزت ملتی ہے، اقتدار ملتا ہے تو فراڈ ثابت ہوتے ہیں۔

پاکستان کے لوگ بھٹکے ہوئے اور تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ کوئی ہمیں طبقات میں بانٹتا ہے، کوئی نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ صف بندی کی طرف دھکیلتا ہے۔ کسی نے اپنی جماعت کو وفاقی قوت بنایا نہ منتشر ہجوم کو منظم قوم بنانے کا سوچا۔ ہم منتشر ہیں تو ہماری ترجیحات بھی منتشر ہوں گی۔ ہمارے مفادات اور ریاست کے مفادات الگ ہو جائیں گے، ریاست دلدل میں دھنسنے لگے گی اور ہم اس کو ڈبونے میں اپنی بقا تلاش کریں گے۔ ایسی دماغی حالت کے ساتھ کیا ہم بحرانوں سے نکل پائیں گے، ہم اپنے اپنے پسندیدہ بدمعاعشوں، چوروں اور رسہ گیروں کو کندھے پر بٹھا کر اسمبلی میں پہنچاتے ہیں۔ ہم ان لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں جنہیں شہروں کی صفائی کا نظام بنانے میں دلچسپی نہیں، ہمیں وہ جمہوریت کے چیمپئین لگتے ہیں جو ہسپتالوں کو جدید بنانے سے ناواقف ہیں، ہم ناخوا ندہ اور بے علم لوگوں کو تعلیمی نظام درست کرنے کا کام سونپ دیتے ہیں، ہمیں اسے نمائندہ منتخب کرتے ہیں جو چور کو تھانے سے چھڑا سکے اور مخالف کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے کی طاقت رکھتا ہو۔ بدزبانوں کو دانشمندوں پر ترجیح دینے والا معاشرہ، سیاسی جماعتیں اور ادارے اچھے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔