Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jhoot Par Khari Inqelabi Siasat

Jhoot Par Khari Inqelabi Siasat

انسان سیکھنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے لیکن وہ سیکھی ہوئی ہر بات کو اپنے طریقے سے کرنے کی خو کے باعث اکثر گڑھے میں جا گرتا ہے۔ معاملہ قانونی ہے لیکن چونکہ سیاست دانوں سے متعلق ہے اس لئے سیاسی سمجھا جا رہا ہے۔ خیر ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ڈھائی سال پہلے چین میں کورونا کی وبا نمودار ہوئی تو ایک ڈاکٹر نے نئی وبا سے خبردار کیا۔ حکومت نے اسے افرا تفری پھیلانے کا قصور وار ٹھہرا کر گرفتار کر لیا۔ آڈیو ویڈیو کا حالیہ فساد دراصل قانونی جرائم کو بہت سے الزامات کے ڈھیر میں دبانے کی کوشش ہے۔ ہفتہ بھر ہو گیا چینلز پر اب تک تبصرے جاری ہیں۔

ستم یہ ہے کہ بات سمجھانے کے لئے کہانی بنانا پڑتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں منتخب کی ہیں 1950.ء کی بات ہے اٹلی کی حکومت نے پہاڑی علاقے میں پن بجلی منصوبے کے لئے ڈیم کی تعمیر شروع کی۔ وے جنٹ کے علاقے میں ڈیم کے لئے جگہ تلاش کی گئی۔تین اطراف مین پہاڑ۔ یہاں گہری وادی تھی اس لئے اس لوکیشن کو بہترین تصور کیا گیا۔ 1957ء سے 1959ء تک تعمیر جاری رہی۔ ڈیم کا ڈیزائن امریکہ کے ہو فر ڈیم جیسا رکھا گیا تاہم اس جیسا چوڑا نہیں تھا۔ کنکریٹ سے بنا ڈیم لمبا بنایا گیا۔ تعمیر کے بعد جب ڈیم پانی سے بھر دیا گیا تو مسائل نمودار ہونا شروع ہوئے جیسا کہ زمین کھسکنا، ایک ماہر ارضیات نے خبردار کیا کہ وادی محفوظ نہیں۔ حکومت کے لئے یہ ڈیم سیاسی مفادات کا ذریعہ بھی تھا اس لئے ماہر ارضیات کو دھمکی دی گئی کہ خاموش رہے۔

ڈیم چار برس تک کام کرتا رہا۔ 9اکتوبر 1963ء کو بارشی پانی سے علاقے میں سیلاب آ گیا۔ ڈیم سے ابلنے والے پانی میں کئی قریبی دیہات بہہ گئے۔ آبادیوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ 2000لوگ مارے گئے۔ پہلے لگا کہ ڈیم ٹوٹا۔ تفصیلی معائنے کے بعد پتہ چلا کہ ڈیم تو ٹھیک ہے لیکن اس کی وی شکل والی جھیل پانی کی بجائے چٹانوں، مٹی اور اکھڑے ہوئے درختوں سے بھری ہوئی تھی۔ ڈیم کی جھیل میں 45سیکنڈ کے اندر اندر 260ملین کیوبک میٹر ملبہ ارد گرد کے پہاڑوں سے کھسک کر آن گرا۔ اس سے 50ملین کیوبک میٹر پانی ڈیم سے باہر جا پڑا۔ بھاری سرمایہ سے تیار ڈیم اب بند پڑا ہے۔ بجلی تو پیدا نہیں ہوتی یہاں سیاح آتے ہیں۔ مرنے والوں کی یادگار پر پھول چڑھاتے ہیں اور تصویریں بناتے ہیں۔

صدام حسین کو مارنا، افغانستان پر حملہ وغیرہ بھی مہنگی پڑنے والی ریاستی غلطیاں شمار ہوتی ہیں لیکن بڑے مالی نقصان والی غلطیاں صرف حکومتیں نہیں کرتیں، افراد بھی ایسا کرتے ہیں۔ گولف کے شہرہ آفاق کھلاڑی ٹائیگر ووڈز کو کون نہیں جانتا۔ ٹائیگر ووڈز نے اپنی اہلیہ سے بے وفائی کی۔ جھگڑا ہوا۔ دونوں کے لئے اکٹھے رہنا ناممکن ہوا۔ طلاق کا معاملہ 750ملین ڈالر میں طے پایا۔ کیپٹن ایڈورڈ سمتھ ٹائی ٹینک کو آئس برگ کی جانب لے گیا اور قیمتی جانوں کے ساتھ 7.5ملین ڈالر کا جہاز ڈبو دیا۔ وہ ایسا نہ کرتا تو ٹائی ٹینک نہ ڈوبتا۔ انگلینڈ میں ایک بوڑھی خاتون نے 181ملین یورو کا انعام جیتا لیکن اس کے شوہر نے لاٹری ٹکٹ کوڑے میں پھینک دی۔ کیلی فورنیا میں ایک شکاری نے شکار بھوننے کے لئے آگ جلائی اور اسے جلتا چھوڑ کر چلا گیا۔ اس آگ نے جلد ہی اردگرد کے گھاس اور درختوں کو پکڑ لیا۔ آگ اس قدر پھیلی کہ 3لاکھ ایکڑ پر پھیلے جنگلات خاکستر ہو گئے، 23سو سے زائد گھر جل گئے اور 14افراد جان گنوا بیٹھے۔

2015ء میں ایک گمنام ذریعہ نے موزاک فونزکا نامی کارپوریٹ لا فرم کی11.5ملین دستاویزات لیک کر دیں۔ ان دستاویزات سے پتہ چلا کہ دنیا بھر میں اعلیٰ عہدوں پر موجود سیاستدان غیر قانونی طریقے سے سمندر پار املاک خرید رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں فراڈ، ٹیکس چوری اور بین الاقوامی پابندیوں سے بچائو کی راہیں نکالی گئیں۔ یہ سکینڈل بعدازاں پانامہ لیکس کہلایا۔ آف شور کمپنیاں بنا کر مالیاتی اور ٹیکس نظام کو دھوکہ دیا گیا۔ جب یہ معاملہ پاکستانی سپریم کوٹ میں گیا تو مریم نواز شریف نے اپنے خاندان کے دفاع میں دو دستاویزات جمع کرائیں۔ یہ دستاویزات 2006ء کی تاریخ کی بتائی گئیں۔ ان دستاویزات میں بتایا گیا کہ شریف خاندان کا لندن کی جائیدادوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ دستاویزات 2006ء کی ظاہر کی گئیں لیکن ان کی تحریر کے لئے کیلبری کا فونٹ استعمال ہوا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ کیلبری فونٹ سب سے پہلے کمرشل استعمال کے لئے 31جنوری 2007ء کو متعارف کرایا گیا۔ اس سے قبل مائیکرو سوفٹ ورڈ ٹائمز نیو رومن فونٹ استعمال کرتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریف خاندان کی طرف سے جو دستاویزات عدالت میں جمع کرائی گئی ہیں وہ نقلی اور جعلسازی سے تیار کی گئی ہیں۔

مسلم لیگ ن اپنے تئیں ایک بڑی لڑائی لڑ رہی ہے۔ عدلیہ سے لڑنے کے لئے وکلا کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں، میڈیا کی بااثر آوازیں ساتھ ملائی جا رہی ہیں، افسر شاہی سے درپردہ رابطے ہیں۔ حکومت کی کمزوریاں تلاش کی جاتی ہیں اور روز ایک پریس کانفرنس میں اپنا بیانیہ اگل دیا جاتا ہے۔ بالائی طبقے کا حکومت مخالف حصہ ن لیگ کے ساتھ ہے۔ حکمران اشرافیہ پاکستان کی کل آبادی کا پانچ فیصد ہے۔ اکیس کروڑ میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ لوگ۔ یہ ڈیڑھ لاکھ شہزادے شہزادیاں اپنے اقتدار کے لئے بھوکے اور بے گھر پاکستانیوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ وہی بھوکے جو ان کے جلسوں میں بریانی کی ایک پلیٹ کے لئے کپڑے پھڑوا لیتے ہیں، ایک بوٹی بھنبھوڑنے کے لئے کسی بھی سطح پر چلے جاتے ہیں۔

سیاست دان جمہوریت چاہتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ کون سی جمہوریت؟ ہمارے ہاں ایک گمراہ کن نعرہ پھیلایا گیا کہ سیاست دان صرف عوام کو جواب دہ ہیں۔ پوچھیں کون سے عوام تو اپنے بریانی والوں کا نام لیں گے۔ ساری جمہوریت بریانی کی پلیٹ اور قیمے والے ایک نان پر ٹکی ہے۔ غلطی کر رہے ہیں۔ بہت بڑی غلطی۔ عام آدمی جو آپ کے جلسوں میں نہیں جاتا، جو آپ کی جماعت کا کارکن نہیں، جو آپ سے ملنے کا شائق نہیں، اس کے لئے آپ کے پاس کیا ہے۔ وہ غلطیوں، الزامات اور جرائم کے کوڑے دان سے دور رہے گا، اس کی سوچ آپ جناب سرکار کی خود ساختہ خوبیوں کو مسترد کر رہی ہے، اس عام آدمی نے بار کونسلوں کی تقریبات، میڈیا پروپیگنڈہ اور سیاسی سرگرمیوں کو اہمیت نہیں دی، اس کو تو ابھی تک کیلبری فونٹ کا جواب نہیں ملا۔