جہانگیر ترین، علیم خان اور چودھری سرور، تحریک انصاف کی انتخابی قوت کے تین پائے۔ پہلے دو الگ کر دیے گئے تیسرا لندن میں بیٹھ کر بتا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی حکمت عملی اتنی ہی ناقص ہے جتنی کہ سیاسی۔ وزیر اعظم طبع نازک رکھتے ہیں اس لئے لندن سے ہی چودھری سرور نے بیان جاری کر دیا کہ پارٹی استعفیٰ مانگے گی تو پیش کر دوں گا۔
ہماری نانی اماں تہہ دار پراٹھے بنایا کرتی تھیں، اوپر سے خستہ اور ہر تہہ میں گھی کی نرماہٹ۔ اسی سے عادت بن گئی کہ ناشتہ پراٹھے اور چائے کا کرنا ہے۔ قصہ یاد اس لئے آیا کہ چودھری سرور کا معاملہ بھی خستہ اور تہہ دار سا معلوم ہوتا ہے۔
چودھری سرور تہذ یبی طور پر ماڈرن جبکہ اندر سے پینڈو ہیں۔ ہمارا پینڈو گوروں جیسا صاف گو ہے۔ اسی لئے گوروں کے دیس میں شہریو ں کی نسبت پینڈو زیادہ کامیاب رہے۔ چودھری سرور کے ساتھ کچھ دوست اس وقت لندن میں ہیں ان کا کہنا ہے کہ لوگ ان کی بات سنتے ہیں۔ دوسری طرف سٹاک مارکیٹ بیٹھ جانے کی باتیں ہیں ایسے میں تصور جاناں کون کرے۔ آنکھ بند کریں یا کھولیں روپے کی قدر بنگلہ دیش کے ٹکے اورافغانستان کے افغانی کے مقابلے میں دو جبکہ بھارت کے ایک روپے کے بدلے سوا دو روپے ہو چکی ہے۔
ایک دوست کہہ رہے تھے:عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو دوسو ماہرین کی ٹیم کو ملکی معیشت بہتر کرنے کا ٹاسک سونپنے کا دعویٰ کیا۔ اب تک آٹھ سے دس ماہرین آزما لئے گئے ہیں۔ اللہ خیر کرے ابھی 190معیشت دانوں کے تجربے سے ہم نے گزرنا ہے۔ جانے تب تک فی من آٹے کے نرخ فی تولہ سونا کے برابر ہو جائیں، ایلون مسک خلا کا جو کرایہ لے رہا ہے ہم اتنے روپے دے کر لاہور سے اسلام آباد جایا کریں۔ جانے تب تک کیا کچھ ہو چکا ہو۔
ماحول بنایا گیا تھا کہ لوگ یقین کریں، عمران سیاست کو پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کی حکومت میں کسی نے پیسہ نہیں بنایا۔ پنجاب میں ٹرانسفر پوسٹنگ کا کاروبار ہو رہا ہے۔ ہارون الرشید صاحب سے ایک روز بات ہو رہی تھی، میں نے کہا اس دن سے خوف آ رہا ہے جب عثمان بزدار وزیر اعظم ہوں گے۔ ابھی تک لاہور کو تونسہ بنانے کی تگ و دو میں ہیں، سوچیں اسلام آباد میں وزیر اعظم بزدار کے گھر میں جب بجلی نہ ہوئی تو ساری دنیا ان کی صلاحیتوں کا کس قدر بلند سروں میں اعتراف کرے گی۔
دانشمند وزیروں نے کئی مسائل خود پیدا کر لئے۔ ہوا بازوں کی ڈگریوں اور پیشہ وارانہ اسناد پر پارلیمنٹ میں بنا سوچے سمجھے بیان داغ دیا، نئی مشکلات اب تک حل نہ ہو سکیں۔ دو ہفتے قبل گلاسگو میں بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس تھی، وزیر اعظم عمران خان کی شجر کار ی مہم کو ساری دنیا سراہ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا نام پہلی بار ماحولیاتی لیڈر کے طور پر سامنے آیا۔ برطانوی وزیر اعظم اور دیگر عالمی رہنما نام لے کر اپنی تقریروں میں عمران خان خان کی تحسین کر رہے ہیں۔
کتنا آسان تھا زرتاج گل اور ملک امین اسلم کے لئے کہ گلاسگو کانفرنس میں پاکستان کی کاوشوں کا ذکر کرتے، عالمی اداروں سے رابطے بڑھاتے، دنیا سے فنڈز لینے کی کوشش کرتے۔ دونوں آپس میں لڑ پڑے۔ بڑا نقصان یہ کہ مالیاتی مسائل کے شکار پاکستان نے عالمی معاونت حاصل کرنے کا اچھا موقع ضائع کر دیا۔ جو بنا بنایا کھیل بگاڑ دیں کابینہ میں ان کی اکثریت ہے۔ اس واقعہ کے بارے کون پوچھے؟ شاید کوئی یہ بھی نہیں پوچھ سکے گا کہ وزراء کو باہر جانے سے کیوں روک دیا گیا۔
چھ سات ماہ پہلے لکھا تھا کہ چودھری سرور ساہیوال سے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ چودھری صاحب برطانیہ میں کامیاب کاروباری و سیاسی زندگی گزار آئے ہیں۔ وہ سینیٹر منتخب ہوئے، انہیں لیگی اراکین اسمبلی نے بھی ووٹ دیا۔ انہیں ٹربل شوٹر سمجھا جاتا ہے۔ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے حالیہ مارچ کو روکنے کی ذمہ داری چودھری سرور کو سونپ دی جاتی تو پولیس اور ٹی ایل پی میں تصادم کی نوبت نہ آتی۔ عثمان بزدار کی کمزوریاں پنجاب میں طاقت کے متبادل مراکز پیدا کر رہی ہیں۔ سپیکر چودھری پرویز الٰہی اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بعد چودھری سرور کے گرد 10سے 15ایسے افراد ہیں جو کسی جماعت کا حصہ بن کر پارلیمنٹ میں جا سکتے ہیں۔
گورنر چودھری سرور نے برطانیہ میں اوورسیز پاکستانیوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ چودھری سرور تھے جنہوں نے پوری ریاستی مشینری کی ناکامی کے بعد تن تنہا پاکستان کو جی ایس پی پلس لے کر دیا۔ چودھری سرور نے حساب لگا رکھا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی سے تین کروڑ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ ای وی ایم اور تارکین وطن کو ووٹ کا حق ملنے سے نوے لاکھ نئے ووٹر آ جائیں گے۔ ان نوے لاکھ ووٹروں کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔
تارکین وطن کو آئی ایم ایف کے حوالے سے خدشات ہیں۔ انہیں ملکی معیشت بھنور میں پھنسے ہونے کا اندازہ ہے۔ پچھلے تین برس سے ترسیلات زر سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچا ہے۔ ہر مہینے ڈھائی ارب ڈالر نہ آئیں تو ملک کا چلنا ناممکن ہو۔ معلوم نہیں انگلستان میں چودھری سرور کس طرز پر سیاست کیا کرتے تھے، گوروں جیسی جمہوری اور سیاسی روایات پر چلے ہوں گے۔ پاکستان میں گوروں والی جمہوریت نہیں۔ چودھری سرور سات آٹھ سال میں طاقت کے کئی مراکز سے تعلق کار استوار کر چکے ہیں، ان کے ذمے ایک اور کام لگا دیا گیا ہے۔
شاید کوئی ہدف متعین ہوا ہے، اوورسیز کو ترسیلات زر کی رقم بڑھانے کی ترغیب دی جا رہی ہے تاکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے بچا جا سکے۔ ایک نئی ٹیم بنائی جا رہی ہے، اوورسیز لیڈر ہوں گے، طاقت کا ایک نیا مرکز ابھرنے کو ہے، گھر میں وہی بااختیار ہوتا ہے جو گھر والوں کی کفالت کا بوجھ اٹھاتا ہے، چودھری سرور نے کہا کہ وہ بے اختیار عہدے پر ہیں، اگلا سیٹ اپ آئی ایم ایف کے دبائو سے نکلنے کے ماڈل پر تیار ہو رہا ہے تو چودھری سرور کی بے اختیاری اختیار میں بدل سکتی ہے۔ کب؟ چند ہفتے انتظار!