Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dakhli Takrao Ka Shikar Dhancha

Dakhli Takrao Ka Shikar Dhancha

فیصلے آتے ہیں اور دھند بڑھ جاتی ہے، نوٹس لئے جاتے ہیں اور خرابی دوچند ہو جاتی ہے۔ اس ماحول میں اصلاح کس کی کریں، اپنی یا اداروں کی؟ کسی ادارے میں چلے جائیں، ادارے کا مطلب تو آپ سمجھتے ہوں گے نا، ادارہ کوئی بھی ہو وہاں ایک داخلی تصادم اور کشمکش دکھائی دے گی۔ فیصلہ کرنے والے ایک دن جو طے کرتے ہیں اگلے دن اس سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ اصول اور ضابطے اس قدر غیر مستحکم کہ گویا پانی پر لکھی تحریر ہیں جو ہلکے سے ارتعاشمیں ڈوب جائے۔

بات سیاست سے شروع اور سیاست پر ختم ہوتی رہی ہے۔ ہم عدلیہ سے آغاز کرلیتے ہیں۔ ماضی کیٰ عدلیہ میں حکومت کے حامی اور مخالف ججوں کا آپسی ٹکرائو ایک حقیقت رہا ہے۔ ابتدا میں اختلاف کی بنیاد نظریات اور اصول ہوا کرتے تھے پھر یہ ٹکراومفادات کے تابع ہو گیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کے بعد بہت سے چیف جسٹس اور جج حضرات تعلق داری، سیاسی تعصب اور مفادات کے کھیل کا حصہ بنے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک مرحوم چیف جسٹس خواجہ شریف تو چیف جسٹس بننے کے بعد بھی خود کو نون لیگ کا کارکن کہا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں۔ جسٹس قیوم کا مشہور زمانہ کردار ٹیپ میں محفوظ ہوکر ہماری سماعتوں میں گھل چکا۔ ان موتیوں کی لڑی اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس صدیقی کے روپ میں آگے بڑھی۔

عدالتیں فیصلے کرتی ہیں، مقدمہ کے فریق باہر آتے ہیں، دونوں کے وکلاء کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوتے ہیں۔ مٹھائی کے ٹوکرے تیار ہوتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے کی وضاحت باہر میڈیا کے سامنے دو مختلف اور باہم متصادم تشریحات کی صورت میں کی جاتی ہے۔ تاثر بنتا ہے کہ اپوزیشن کو عدالت نے غیر ضروری مدد دی ہے، حکومتی وکیل اور ترجمان کچھ قدم دور کھڑے دوسرے کیمرے کے سامنے اپنی جیت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ہی نہیں ہورہا؟ اگر ایسا ہو رہا ہے تو کس کی ذمہ داری ہے کہ ابہام پھیلانے کا سلسلہ روکے۔ کس کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے۔

مجھے ایک دوست کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ادارے کا اصل پراجیکٹ نوازشریف رہے ہیں۔ وہ نوازشرف جومحض ایک اوسط درجے کے رہنما ہیں لیکن جن کو سینتیس سال سے جمہوری چی گویرا بنایا جا رہا ہے، ہر بار وہ ڈوب کر ابھرتے ہیں تو داد پاتے ہیں، کوئی نہیں بتانا چاہتا کہ ان کو ڈبونے والے اصل مین ان کو ابھارنا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کرلیں، ان کے فیصلوں کو جانچ لیں، ان کی ابلاغیاتی قوت کو جانچ لیں، ان کی جمہوری سوچ کی پڑتال کرلیں، ان کی انتظامی صلاحیت اور دور اندیشی کا آڈٹ کرلیں، وہ مقبول رائے کے ساتھ جاتے ہیں، درست رائے کو اہمیت نہیں دیتے۔ انہوں نے دوبار سے زائد انتخابی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا لیکن پیپلزپارٹی کے کہنے پر تبدیل کیا۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کا فیصلہ بعض بزرگ شخصیات کے دبائو پر کیا، انہوں نے موٹروے بنانے کا فیصلہ ایک تعمیراتی کمپنی اور اپنے چند قریبی لوگوں کے کہنے پر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں سے جو کمشن ملا اسی سے لندن والے مشہور زمانہ فلیٹس خریدے گئے۔ نوازشریف نے کئی بار بم کو لات ماری لیکن انہیں بچا لیا گیا۔ انہیں بھٹو کی طرح ختم کیا گیا نہ ان کی جماعت کو پیپلزپارٹی بنایا گیا۔ وہ آج بھی کچھ اداروں یا ان میں موجود اپنے مہربانوں کے طفیل ایک خطرناک مرض میں مبتلا بتائے جاتے ہیں اور علاج کے نام پر لندن پہنچ جاتے ہیں جہاں دو سال سے انہیں ہسپتال جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ تو کیا کوئی قوت انہیں سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے؟

جمہوری نظام میں مقننہ ایک بنیادی ادارہ ہے۔ ایک حکومت آئین میں ترمیم کرتی ہے، دوسری اسی ترمیم کو ختم کر کے پہلی شق کو بحال کر دیتی ہے۔ کیوں؟ ایک قومی اسمبلی میں چھوٹی بڑی ہر جماعت کا رکن اور رہنما کھڑے ہو کر بتاتا ہے کہ اپوزیشن کو دھرنا اور جلسے ختم کر کے اپنے مطالبات پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہئیں، پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنا چاہیے۔ پھر وہی تقریریں کرنے والے اپوزیشن میں آ جاتے ہیں۔ لانگ مارچ، دھرنوں اور جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں، اس سے کیا سمجھا جائے۔ اخلاقی یا قانونی حقیقت میں ایسی کوئی تبدیلی اس دوان سامنے نہیں آئی جس سے حرام کو حلال کا درجہ مل گیا ہو۔

ایک پامال مثال ہے لیکن بحث کا حصہ۔ 2006ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا۔ اس میثاق میں سینٹ انتخابات میں بدعنوانی روکنے کے لیے اوپن بیلٹ کا اصول متعارف کرانے پر اتفاق کیا گیا۔ اپنی حکومتوں میں دونوں جماعتیں اس وعدے پر عمل نہ کرسکیں۔ اب تحریک انصاف کی حکومت ہے، حکومت کو خدشہ ہے کہ اس کے کچھ اراکین کو دبائو یا روپے کے عوض خرید لیا جائے گا جس کے لیے اس نے اوپن بیلٹ کی بات کی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ دو ہفتے قبل میرے ایک کالم نے سنجیدہ حلقوں کی توجہ حاصل کی اور سینٹ انتخابات بغیر ووٹنگ متناسب نمائندگی کے اصول پر کرانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ پنجاب نے پہل کی۔ بہرحال سابق حکمران دونوں جماعتیں خفیہ رائے دہی کی حمایت کر کے میثاق جمہوریت سے کیوں فرار ہورہی ہیں اس سوال کا جواب سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بھی نہ مل سکا۔

ہمارے قوانین اور آئین میں ایسے تمام خوشنما وعدے اور ضمانتیں موجود ہیں جن سے پاکستان ایک مثالی جمہوری اور قانون پسند سماج بن سکتا ہے لیکن ادارے ایک دورے کا اختیار تسلیم کرتے ہیں نہ سیاسی جماعتیں دوسروں کے مینڈیٹ کو احترام دینے پر تیار۔ باہمی تنازعات کیسے طے ہوں اور اداروں کے اندر ٹکرائو اور کشمکش کو ختم کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے، اس کا آئین میں کوئی انتظام نہیں۔ آئینی عدالت کی تجویز مدت سے زیرگردش ہے لیکن اس پر غور کے لیے کسی کے پاس وقت کہاں؟ ہم شخصیات کی پیروی کرنے والے ہیں، شخصیات کی رائے اور مفادات بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے دوست، دشمن، مخالف اور حامی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ قانون اور آئین مستحکم ہوتے ہیں۔ ان کی رائے نہیں بدلتی۔