کشمیر میں ابھی گلاب نہیں کھلے۔ سیب اور ناشپاتی کے درختوں پر بھلے کوئی پتہ نہ ہو سفید اور گلابی پھول بھرے ہیں، چیل اور دیار کے درخت ابھی ہرے کچور نہیں ہوئے، ابھی دریائے نیلم کا پانی نیلا نہیں ہوا۔ ابھی ضدی برف پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھی دھوپ سینکتی ہے۔ ابھی ہوا میں سیت ہے اور ابھی راستے کچھ خطرناک ہیں۔ پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹس کے گروپ کو ایک فلاحی ادارے سائٹ فائونڈیشن نے مدعو کیا۔ ہم سب ملک سلمان کے ہمرکاب طویل سفر کر کے ضلع نیلم کی حدود میں داخل ہوئے تو بارش نے آ لیا۔ کٹن میں مختص رہائشی کالونی میں پہنچے تو لاہور سے رات 11 بجے روانہ ہونے والے مسافروں کو اگلے دن کے 11 ہو چکے تھے۔
آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے گھر، مساجد اور تعلیمی ادارے ہماری نگاہوں کے سامنے تھے۔ دریائے نیلم کے دونوں حصے الگ الگ تھے لیکن زمین نے دونوں کو جوڑ رکھا ہے۔ پچھلی بار آیا تو سڑک کے ساتھ ساتھ گھنے جنگلات تھے۔ رہائشی کالونی میں سیبوں سے لدے درخت تھے اور عقب میں بلند ہوتے پہاڑوں پر چیل کے درخت ایک دوسرے سے بلند ہونے کی مسابقت کر رہے تھے۔ اس بار یوں لگا کسی نے درختوں سے جنگ کی ہے، صفیں الٹ پلٹ کر دی گئیں۔ یہ درخت کون کاٹتا ہے اور اس لکڑی سے کس کی ضرورت پوری ہو رہی ہے اس پر آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کو ضرور دھیان دینا چاہیے۔
سائٹ فائونڈیشن کم وسائل کے حامل خاندانوں کی مدد کر رہی ہے۔ یاسر رشید نے نیلم ویلی میں ایسے کئی مستحق بچوں کے تعلیمی مصارف اپنے ذمے لے لئے ہیں جو مالی مشکلات کے باعث تعلیم جاری رکھنے کے قابل نہ تھے۔ آٹھویں جماعت کی ایک بچی کی کہانی سن کر ہم سب کی آنکھیں بھیک گئیں، وی لاگردعا تو باقاعدہ رونے لگی۔ اس بچی کے والد ایل او سی کے قریب بارودی سرنگ کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔ چچا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مارے گئے، یہ بچی تعلیم کو خیر باد کہہ کر اپنی بزرگ دادی اور دیگر بہن بھائیوں کی کفالت کر رہی تھی۔ سائٹ فائونڈیشن نے اس کو سکول میں داخل کرایا۔ کچھ مخیر افراد نے اس کے گھریلو اخراجات کے لیے پانچ ہزار روپے مہینہ کی ذمہ داری لی۔ سائٹ فائونڈیشن کی مدد سے اب وہ تعلیم پر توجہ دے رہی ہے۔ سات سے آٹھ برس کی تین بچیاں اور دو بچے بکریوں کے رسے تھامے سکول میں کھڑے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سائٹ فائونڈیشن نے کچھ گھرانوں کو بکریاں خرید کردی ہیں۔ پنجاب میں اسے ادھارے پر جانور پالنا کہتے ہیں۔ انتہائی غریب گھرانوں کے لیے یہ ایک کمیٹی جیسا عمل ہے۔ بکری جب بچوں کو جنم دیتی ہے تو بکری کا مالک اور بکری کی پرورش کرنے والے ان بچوں کو بطور منافع آپس میں بانٹ لیتے ہیں، جو فریق سارے بچے لینا چاہے وہ دوسرے کے حصے کو نقد روپوں سے خرید سکتا ہے۔
سائٹ فائونڈیشن نے اگرچہ لاہور اور چند دوسرے شہروں میں بھی بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے لیکن زیادہ توجہ آزادکشمیر پر دکھائی دی۔ ہم نے کنڈل شاہی آبشار کے قریب دو سکول دیکھے، اٹھمقام کے قریب ایک سکول کا دورہ کیا۔ ان سکولوں میں پریپ سے لے کر انٹر میڈیٹ تک تعلیم دی جا رہی ہے۔ اکثر اساتذہ ایم اے ایجوکیشن، ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس، ایم اے ہسٹری اور سائنس مضامین میں ماسٹرز ہیں۔ یہ مقامی نوجوان ہیں۔ پانچویں اور چھٹی کلاس میں گیا تو میرا اندر اتھل پتھل ہونے لگا۔ یوں لگا ساری بچیاں مناہل بن گئی ہیں۔ دل چاہا انہیں گلے لگا لوں۔ میں ان کے ساتھ بنچ پر بیٹھ گیا۔ ان کی طرف دیکھتا تو آنکھوں میں پانی نظر کو دھندلا دیتا۔ کئی چھوٹی چھوٹی بچیاں اور بچے ہر روز ایک گھنٹہ پیدل پہاڑی سفر کر کے سکول آتے اور پھر اتنا ہی وقت لگا کر گھر پہنچتے ہیں۔ برف باری میں سکول آتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ آزاد کشمیر اور دوسرے سرد علاقوں میں سویٹر اور کوٹ کی جگہ بچوں کو مخصوص رنگ کی جیکٹیں بطور یونیفارم پہننے کی اجازت ہونی چاہیے۔ نویں جماعت کی ایک بچی کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گھاس کاٹتے ہوئے بارودی سرنگ کی وجہ سے ضائع ہو گئیں۔ بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ اب وہ مٹھی میں قلم لے کر لکھتی ہے۔
کراچی کے ایک صاحب ہیں عزیز الرحمن۔ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے شعبے میں ان کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے بل گیٹس نے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ انتہائی منکسر المزاج عزیز صاحب سائٹ فائونڈیشن سے منسلک ایک سکول کے چھوٹے سے کمرے میں بچوں کو کمپیوٹر کا استعمال سکھاتے ہیں۔ وہ سال کا کچھ حصہ آزادکشمیر کے بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔
ہمارا ارادہ تھا کہ نیند اور تھکن کی پروا کئے بغیر زیادہ سے زیادہ علاقوں تک پہنچا جائے۔ جولائی میں انتخابات ہیں، اس بارے میں کچھ دوستوں سے ملاقات کا وعدہ کر رکھا تھا لیکن بارش نے پورا ایک دن کمروں سے نکلنے نہ دیا۔ دو مقامات پر تازہ لینڈ سلائیڈنگ نے گاڑی کے گزرنے کا راستہ بہت تنگ کردیا۔ یوں سمجھیں ٹائر تین انچ نیچے ہو جاتے تو ہم سب جنت مکانی ٹھہرتے۔ پہاڑوں پر رہنے والوں کی زندگی بہت مشکل ہے۔ سیاحوں کو فارمیسی، صاف ٹوائلٹ اور کافی شاپس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ہر پانچ دس کلومیٹر پر حکومت ٹوائلٹ بنا کر ایک ہی جگہ پر تینوں سہولتیں فراہم کرے تو سیاحتی ریونیو بڑھ سکتا ہے۔ سائٹ فائونڈیشن کے سٹاف خصوص حنا، عبداللہ، وقاص اور احمد کا شکریہ جنہوں نے ہمارے مشینی دلوں کو کچھ وقت کے لیے سہی بچوں کی زندگی میں گھلے درد کو محسوس کرنے اور پھر اسے اپنے قارئین تک پہنچانے کا موقع دیا۔