Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kutton Ko Bhonkne Dain (2)

Kutton Ko Bhonkne Dain (2)

(گزشتہ سے پیوستہ)

چلیں مان لیا، لیکن کچھ کتے تو ایسے ہیں جو شکل سے خود شرابی کبابی لگتے ہیں، ان کی آنکھوں کے سرخ ڈورے بہت کچھ بتاتے ہیں۔ اگر نہ بھی بتائیں ان کی حرکتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نارمل حالت میں نہیں ہیں، یہ بلاوجہ بڑھکیں لگاتے رہتے ہیں، مین گیٹ کے نچلے حصہ سے تھوتھنی باہر نکال کر راہ چلتے لوگوں پر غراتے ہیں، گھر آئے مہمان کی پتلون یا شلوار کا پائنچا دانتوں میں دبا کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں، ایسے مواقع پر نہ صرف یہ کہ پتلون اور شلوار میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے بلکہ کسی دھوتی کا پلو بھی منہ میں لے کر کھینچنے لگتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اس طرح کے مدہوش کتے مجھے زہر لگتے ہیں لیکن میرے ایک دھوتی پوش دوست کو یہ بہت پسند ہیں۔ یہ دوست ان کی اس حرکت کو ایک بے ضرر سی حرکت قرار دیتا ہے جبکہ ناظرین کو اس سے اختلاف ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود میں کچھ دنوں سے کسی اچھی نسل کے کتے کی تلاش میں ہوں۔ ایک دوست میرے لئے لے کر بھی آئے مگر وہ کتا نہیں کتیا تھی، سو میں نے معذرت کر لی کیونکہ کتیا بہت سوشل ہوتی ہے۔ اس کے مہمانوں کو کون سنبھالتا پھرے گا۔ علاوہ ازیں کتوں کے بارے میں میری پسند بہت مختلف قسم کی ہے، مجھے پُرامن اور بے ضرر قسم کے کتے پسند ہیں۔ نوکیلے جبڑوں اور گدھے جتنے قد کے کتے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ مجھے تو وہ چھوٹے چھوٹے سے کتے اچھے لگتے ہیں جن کے لمبے لمبے بال ان کی آنکھوں کو ڈھانپے ہوئے ہوتے ہیں اور جو بھونکتے بھی ہیں تو اتنے مترنم انداز میں کہ ان کی پیروی کرنے کو جی چاہتا ہے۔

ایک امریکی مزاح نگار لکھتا ہے کہ بچپن میں ہم لوگ اتنے غریب تھے کہ گھر میں کتا رکھنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے چنانچہ رات کو چوروں سے محفوظ رہنے کے لئے ہم اہلِ خانہ باری باری بھونکنے کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے۔ ایک دوست نے میرے لئے یہ کتا لانے کا وعدہ کیا تھا جس کے لمبے لمبے بال اس کی آنکھوں کو ڈھانپے رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے وعدہ نبھایا تو پھر میں اس کتے کے خصائص تفصیل سے بیان کروں گا، گو ابھی تک گھر میں کتا رکھنے کے حوالے سے میرے ذہن میں کچھ رکاوٹیں ہیں، مثلاً یہی کہ میں نے جب کبھی کوئی کتا پالا ہے وہ بالآخر مجھی پر بھونکا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق پڑتا ہے اگر اسے کاٹنے کی سہولت بھی فراہم کی جائے اور اللہ کا شکر ہے اس کی نوبت کبھی نہیں آئی. بھونکنے والوں کو اس وقت تک بھونکنے دینا چاہئے جب تک وہ تھک نہ جائیں اور اس عالم میں بے بسی سے آپ کی طرف دیکھنا نہ شروع کر دیں.!

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.