شام کے 30 لاکھ کے قریب شہری اس وقت ترکیہ میں پناہ گزین کے طور پر مقیم ہیں ان 30 لاکھ میں سے 23 لاکھ حالیہ بغاوت سے قبل ترکیہ میں تھے 7 لاکھ یا اس سے کچھ زائد شامی باشندوں نے رواں برس اگست سے نومبر کے درمیان شام پہنچ کر خودکو پناہ گزین کے طور پر رجسٹر کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ ہئیت التحریر الشام کی افرادی قوت کا بڑا حصہ انہی پناہ گزینوں سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ ہئیت التحریر الشام میں غیرعرب جنگجوئوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے ان غیر عرب جنگجوئوں کے مستقبل کے حوالے سے دستیاب اطلاعات یہی ہیں کہ شام کی عبوری حکومت انہیں شہریت دینے جارہی ہے۔
کیا یہ 15 سے 18 ہزار غیرعرب جنگجو جن میں پاکستان، ایران چین کے ایغور مسلمان، سوڈانی، داعش خراسان سے تعلق رکھنے والے افغان باشندوں کی ایک تعداد بھی شامل ہے انہیں اگر شام کی شہریت مل جاتی ہے تو یہ خود کو شامی سماج میں ایڈجسٹ کرپائیں گے؟
یا آنے والے دنوں میں شام کے بعض حصوں میں ویسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئے گی جس طرح کی صورتحال کا سامنا پاکستان کو 1990ء کی دہائی کے اختتامی برسوں اور رواں صدی کے پہلے عشرے کے ابتدائی سالوں میں اسوقت کرنا پڑا تھا جب جنیوا معاہدہ کے بعد افغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت جنگ (جسے پاکستان سمیت مسلم ممالک میں افغان جہاد کا نام دیا گیا تھا) کے غیر افغان مجاہدین (پاکستان کے علاوہ) کو ان کے ممالک نے واپسی کا راستہ دینے سے انکار کردیا تھا۔
اس وقت امریکی سی آئی اے اور پاکستانی پالیسی سازوں میں اس امر پر ا تفاق ہوا کہ ان مجاہدین کوپاکستان کے قبائلی علاقوں میں بسادیا جائے۔ مصر، اردن، سعودی عرب، ترکیہ کے علاوہ ازبک و تاجک جنگجوئوں کو قبائلی علاقوں میں اسلامی بھائی چارے کے تحت آباد کرادیا گیا۔
رواں صدی کے پہلے عشرے میں 9/11کے بعد پاکستان کی فوجی اشرافیہ نے افغان پالیسی تبدیل کی تو گزرے کل کے یہ مجاہدین دہشت گرد قرار پائے۔ جہاد سے دہشت گردی تک کے اس سفر کو بنیادی طور پر قبائلی علاقوں میں آباد عرب، ازبک و تاجک جنگجوئوں نے خود اپنے لئے مسئلہ بنایا ان جنگجوئوں نے اپنے زیراثر علاقوں میں نجی عدالتیں، جیلیں وغیرہ قائم کررکھی تھیں اسلامی اخوت کے نام پر جن مقامی خاندانوں نے ان غیرمقامی سابق افغان جہادیوں سے رشتہ داریاں کرلی تھیں انہوں نے بھی مسائل کے بڑھاوے میں کردار ادا کیا۔
9/11کے بعد جب جنرل پرویز مشرف کی کمانڈو حکومت نے امریکی ٹیلیفون پر ڈھیر ہوکر انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا تو اس وقت قبائلی علاقوں میں مقیم ان عرب ازبک و تاجک اور دیگر غیرمقامی جنگجوئوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ہم ان دنوں پشاور کے ایک اشاعتی ادارے کے علاوہ لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ "ہم شہری" میں ہفتہ وار تجزیہ لکھتے تھے۔ ہم شہری کی ہی ایک اشاعت میں مشرف حکومت کے ازبک تاجک عرب اور دوسرے غیرمقامی جنگجوئوں کے خلاف آپریشن کے فیصلے پر ان جنگجوئوں کی آباد کاری اوراگلے مراحل سے آپریشن کے فیصلے تک پر ایک تفصیلی مضمون لکھا اس مضمون کو ہمارے استادِ مکرم جناب حمید اختر صاحب مرحوم نے جو ان برسوں میں روزنامہ " ایکسپریس " سے منسلک تھے دو سے تین اقساط میں اپنے کالم کاحصہ بنایا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تب ہم نے یہ عرض کیا تھاکہ گو کہ امریکی رپورٹس درست ہیں کہ یہ ازبک تاجک عرب اور دوسرے وہ جنگجو جو سی آئی اے کے ایما پر پاکستانی قبائلی علاقوں میں بسائے گئے تھے 9/11کے بعد امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغانوں کی عدی سپورٹ کررہے ہیں لیکن پاکستانی حدود میں آپریشن کرتے وقت ہمارے پالیسی سازوں کو ردعمل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ ردعمل دو وجوہات پر ہوگا اولاً یہ کہ ان غیرمقامی جنگجوئوں کے مقامی رشتہ دار خاندان ان کا ساتھ دیں گے اور یہ قبائلی تنازع بن جائے گا دوئم یہ کہ امریکہ سوویت جنگ کے بعد افغانستان میں پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی میں پاکستان کے دیوبندی مدارس کے بڑے حصے نے اس خانہ جنگی میں شرکت کے لئے اپنے طلباء کی بنام جہاد ذہن سازی کی ہے یہ دونوں وجوہات پاکستان میں دہشت گردی کا دروازہ کھول دیں گی۔
تفصیل کے ساتھ مندرجہ بالا سطور میں جن امور کی نشاندہی کی ہے اسے شامی سماج کے مستقبل کے حوالے سے پیش نظر ر کھنے کی ضرورت ہے۔
ایک مستحکم ملک پاکستان کو پانچ ہزار کے لگ بھگ غیرمقامی افغان جہادیوں کو لابسانے کی جو قیمت ادا کرنا پڑی بلکہ اب تک ادا کرنا پڑرہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں شام کی حالیہ بغاوت کے بعد اسرائیل نے اس کی 95 فیصد فوجی قوت ملیامیٹ کرکے رکھ دی ہے۔
30 لاکھ باشندے ترکیہ میں 2 لاکھ عراق میں اور 80 ہزار کے قریب لبنان میں مقیم ہیں۔ ان حالات میں ہئیت التحریر الشام کو تحلیل کرتے ہوئے اسے باقاعدہ شامی فوج کا حصہ بنانے کا فیصلہ مستقبل میں کن مسائل کو جنم دے گا ان سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں۔
شام کے عبوری سربراہ (یاد رہے احمد البشر عبوری وزیراعظم ہیں) احمد الشرع ابو محمد الجولانی نے گزشتہ سے پیوستہ روز ایک عرب ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں شام اور ہئیت التحریر الشام کے مستقبل کے حوالے سے اہم باتیں کیں۔
الجولانی نے کہا ہے کہ وہ بہت جلد شام میں وسیع البنیاد قومی ڈائیلاگ کانفرنس کا انعقاد یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں بہت جلد جب قومی ڈائیلاگ کانفرنس ہوگی تو وہ اس میں ہئیت التحریر الشام کو باضابطہ طور پر تحلیل کرنے کا اعلان کریں گے۔ ان کے مطابق ہئیت التحریر الشام کے جنگجوئوں کو باقاعدہ طور پر شامی فورسز (فوج) کا حصہ بنادیا جائے گا۔
یہ بھی کہا کہ شام میں عام انتخابات کے انعقاد میں 4 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس سے قبل ملک کا نیا آئین تیار کیا جائے گا آئین کی تیاری میں 3 سال لگ جائیں گے۔
عرب ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں الجولانی نے علاقائی و عالمی سیاست شام روس تعلقات اور دیگر معاملات پر بھی اظہار خیال کیا مگر ہمارے لئے اہم ترین دو باتیں ہیں اولاً ہئیت التحریر الشام کی ممکنہ تحلیل اور اس میں موجود مختلف الخیال جنگجوئوں کو شامی فورسز (فوج) کا حصہ بنانا ہے۔
ہئیت التحریر الشام کے جنگجوئوں کی مجموعی تعداد 30 ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے ان میں 15 ہزار سے 18 ہزار کے قریب غیرعرب جنگجو ہیں ان غیرعرب جنگجوئوں میں سب سے زیادہ تعداد چین کے ایغور مسلمانوں کی ہے ان کے علاوہ پاکستان کی بعض کالعدم تنظیموں کے لوگ اور دیوبندی مدارس کے طلاب شامل ہیں۔
ایرانی جنداللہ کے جنگجوئوں اور سوڈان سے تعلق رکھنے والی تنظیم الجہاد الاسلامی العالمی کے جنگجو بھی شامل ہیں۔ ان 15 سے 18 ہزار غیرشامی و غیرعرب جنگجوئوں کو اگر ہئیت التحریر الشام کی شوریٰ کے فیصلے کے مطابق شام کی شہریت دی جاتی ہے تو یقیناً یہ شام کی سرکاری فورسز کا مستقبل میں دوسرے جنگوئوں کی طرح باقاعدہ حصہ ہوں گے۔
مقامی سماجی روایات، تاریخ، زبان اور دوسرے امور سے یکسر نابلد یہ جنگجو شامی سماج کا حصہ کیسے بن پائیں گے؟
اس سوال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ غیرملکی جنگجو ہئیت التحریر الشام کی بغاوت (وہ اسے جہاد کہتے ہیں) میں شام کے مسلمانوں کو علوی شیعوں کے کفر سے نجات دلانے کے لئے جہاد میں شریک ہوئے تھے۔ 15 ہزار سے اوپر یہ غیرمقامی شدت پسند جن کی وجہ سے دمشق، حمص اور حلب میں پچھلے ہفتے کے دوران چند افسوساک واقعات بھی ہوئے اور حمص کے علاوہ چند دوسرے چھوٹے شہروں میں جہاں علوی اور شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں کرفیو کے نفاذ تک بات جاپہنچی تھی۔
کیا مستقبل میں ان جنگجوئوں کی فرقہ وارانہ نفرت اور عسکریت پسندی سے محفوظ رہ سکیں گے۔ شام کی نئی موجودہ اور مستقبل میں جو بھی ہو قیادتوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اور امتحان یہی غیرمقامی جنگجو ہوں گے کیونکہ یہ شامی بغاوت میں فرقہ وارانہ نفرت کے ساتھ شریک ہوئے۔
ان کی وجہ سے پچھلے ہفتے ڈیڑھ ہفتے کے دوران دمشق حمص اور دیگر علاقوں میں جو افسوسناک واقعات رونما ہوئے عبوری حکومت اور ہئیت التحریر الشام کے بڑے ان واقعات کو انفرادی فعل قرار دے رہے ہیں لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔
ہمارے سامنے دو ملک بطور مثال موجود ہیں پاکسان اور افغانستان۔ دونوں میں ماضی میں فرقہ پرست غیرملکی جنگجوئوں نے جو "گل" کھلائے ان کی "خوشبو" سے دونوں ملک مہک رہے ہیں۔
جاری ہے۔۔