میرے دوست پوچھتے ہیں کہ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم تو کہا کرتے تھے کہ انڈیا کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہیں ہونا چاہئے بلکہ عالمی سطح پر اس مسئلے کی اہمیت اجاگر کرتے رہنا چاہئے اور ہمارے سفارتخانوں سے ہر ماہ یہ رپورٹ لینا چاہئے کہ اس ضمن میں انہوں نے ابھی تک کیا کردار ادا کیا ہے۔ تم یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اس کیساتھ ساتھ بھارت سے تجارت، ویزے میں نرمی اور ادبی و ثقافتی وفود کی آمدو رفت بھی جاری رہنا چاہئے کیونکہ تمہارے خیال میں جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ہم آزما چکے ہیں اور اس کے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
اور اب تم بھارت کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور کہتے ہو کہ ہمیں کشمیریوں کو بھارت کے دستِ استبداد سے بچانے کیلئے آخری حد تک جانا چاہئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے گجرات کے مسلمانوں اور اب کشمیریوں کے قصائی نریندر مودی نے کشمیر پر مذاکرات کو جانے والے سارے راستے بند کر دیئے ہیں۔
امریکہ میں مقیم میرے سینئر صحافی دوست آفاق خیالی کے مطابق کشمیر میں کرفیو اور ٹیلیفون انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کی واپسی کا فیصلہ دوران کرفیو کشمیریوں کے شدید مظاہروں اور بڑے لیول پر پتھرائو اور کشمیری مظاہرین کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کے واقعات نے نمرود اور مردود مودی سرکار نے پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جو بھارت کی کشمیر میں پہلی بڑی ناکامی ہے، بھارت کے تین بڑے اخبارات دی ہندو، ہندوستان ٹائمز اور انڈیا ٹو ڈے نے گزشتہ ہفتے اپنی ہیڈ لائن میں اقرار کیا ہے کہ کشمیر کے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوئے ہیں جبکہ ان اخبارات نے انکشاف کیا ہے مودی سرکار کی جانب سے کرفیو اٹھانے کے دعوے بھی غلط ثابت ہوئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے وادی کے بیشتر علاقوں میں کرفیو برقرار؛ تاہم پچاس ہزار لینڈ لائن ٹیلی فون ایکسچینج میں سے اٹھائیس ہزار ایکسچینج بھی ابھی تک بند ہیں جبکہ انڈین میڈیا کا دعویٰ ہے کہ سرکاری اہلکار کہتے ہیں لینڈ لائن کے کھولنے کے باعث مقبوضہ وادی میں افواہوں کے ساتھ جب رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مظاہروں میں بھی شدت آ گئی۔
ادھر نیو یارک ٹائم نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے بھارت غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کی آڑ میں چار ملین افراد کو گرفتار کرکے کیمپوں میں رکھنے کی تیاری کر رہا ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور ان میں ایسے مسلمان بھی شامل ہیں جو بھارتی فوج میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ادھر کچھ ایسی وڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں پورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ بڑے بڑے جلسوں کے دوران یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ مودی ہمیں صرف پانچ منٹ کیلئے کھلا چھوڑ دیں تو ہم پچیس کروڑ مسلمانوں کو قتل کر کے بھارت کو مسلمانوں سے پاک کر دیں گے جبکہ یہ انتہاپسند لیڈر یہ بھی کہتے دکھائے گئے ہیں کہ مسلمانوں کی عمر چودہ سو سال ہے اور ہماری لاکھوں سال، ہم ان کے باپ ہیں اور باپ، باپ ہی ہوتا ہے۔ یہ لیڈر کہہ رہے ہیں ہندو مسلمانوں سے کسی بھی قسم کا کاروبار بند کر دیں تو یہ پچیس کروڑ ہمارے دروازے پر آ کر پوچھیں گے "ہمیں کس مندر میں جاکر مذہب تبدیل کرنا ہے" جبکہ یہ ہندو انتہاپسند دہشت گرد لیڈر ہندو عوام کو اسلحہ رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے اور بلاشبہ بھارت کا بُرا وقت شروع ہو چکا ہے، اگر امریکہ تارکین وطن کے نام پر چار ملین مسلمانوں کو گرفتار کرکے Detention Centersمیں ڈالتا ہے اور ادھر ہندو انتہاپسند بھارت کے مسلمانوں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کرتے ہیں تو پھر عالمی برادری کی بے شرمی اور بھارت کے مظالم سے نگاہیں چرانے کا رویہ بہرصورت تبدیل ہوگا جس کے نتیجے میں نام نہاد مسلم امہ کے رکھوالوں کو بھارت میں اپنی سرمایہ کاری پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ اس طرح یورپ اور امریکہ کو بھی انسانی حقوق کی سربلندی کے پس منظر میں تباہ ہوتی اپنی ساکھ کو بچانے کے اقدامات کرنا ہوں گے جن کے نتیجے میں پہلا وار بھارتی معیشت پر ہوگا تاہم یہ اسی وقت سب ممکن ہو گا کہ کشمیری عوام بھارت سے اپنے غصے اور نفرت کے اظہار میں کسی قسم کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں جبکہ مقبوضہ وادی میں مسلسل کرفیو اور سہولتوں کی عدم دستیابی اور بھارتی سرکار کی پابندی اس آگ میں تیل کا کام دے گی، دیکھنا یہ ہے بھارت مزید کتنے دن، کتنے ہفتے مقبوضہ وادی میں پابندیوں کو تسلسل دینے کی سکت رکھتا ہے، پاکستان اور کشمیریوں کی اس وقت کوشش یہ ہونا چاہئے وہ عالمی برادری میں بھارتی تشدد کی اپنی رپورٹنگ کو تیز سے تیز تر کریں اور کشمیری عوام کی حوصلہ افزائی جس قدر کر سکتے ہیں، کریں تاکہ وہ ہر نئے دن نئے جذبے کے ساتھ بھارتی ظلم و جبر و استبداد کے خلاف متحد ہوکر اپنے گھروں سے نکلیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں ہم اس حکمت عملی پر عمل کر کے بھارت کو پہلی بار بغیر کسی جنگ کے چت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اور آخر میں میں ایک بار پھر مذاکرات اور انٹرنیشنل فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ بھارت سے تجارت اور ویزوں میں نرمی والی رائے کو آج کے حالات میں بے معنی قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کروں گا کہ وہ شاہ محمود قریشی کی دانشورانہ باتوں میں آنے کے بجائے آتشِ نمرود کو گل و گلزار بنانے کی رسمِ ابراہیمی کی تجدید کرے۔