ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ ایک دوسرے کے رازوں سے واقف نہیں ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کا ظاہر نظر آتا ہے، باطن دکھائی نہیں دیتا۔ زندگی کے کتنے ہی شعبوں کے لوگ ہیں جنہیں ہم ان کے ظاہری لباس میں دیکھتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ اصل میں کیا ہیں، اس سے پوری طرح واقف وہ خود ہی ہو سکتے ہیں ہم لوگ زیادہ سے زیادہ صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ ہمیں ایک معزز شخص نظر آتا ہے جس نے قیمتی لباس پہنا ہوا ہے اور بہت مہنگی گاڑی میں سوار ہے۔ بظاہر اس کی شخصیت پر کوئی داغ دھبہ نہیں، بظاہر وہ خوش بھی نظر آتا ہے لیکن اپنے حالات سے صرف وہ خود واقف ہے، وہ جانتا ہے اس نے یہ دولت کیسے کمائی ہے، کتنے لوگوں کا حق غصب کیا ہے، اس کے دولت جمع کرنے کے جنون کے نتیجے میں معاشرے کو کس درجہ نقصان پہنچا ہے اور یہ بھی کہ کیا یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے اصل خوشی بھی میسر ہوئی ہے کہ نہیں؟
اس طرح ہمیں ایک اور شخص پانچ وقت مسجد میں نظر آتا ہے، اس کی وضع قطع بھی شرعی ہے اور ٹوتھ پیسٹ کے بجائے مسواک استعمال کرتا ہے، وہ مسجد میں دایاں پائوں رکھتے وقت دعا پڑھتا ہے اور پھر بایاں پائوں اٹھاتے وقت بھی اس کے ہونٹوں پر دعائیہ کلمات ہوتے ہیں۔ اس نے پانی پینا ہو تو کھڑے ہو کر اور ایک دم نہیں پیتا بلکہ اس کے تین یا تین سے زیادہ گھونٹ بناتا ہے غرضیکہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں سنت کی پیروی کی کوشش کرتا ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان ظاہری معاملات سے ہٹ کر اس کے باطنی معاملات کیا ہیں، اگر وہ کاروباری ہے تو کیا کاروبار کرتے وقت وہ سنت نبویؐ پر عمل پیرا ہوتا ہے، اگر وہ جج ہے تو کیا انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر وہ حضورؐ اور ان کے غلاموں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو انصاف دیتا ہے یا حکمِ حاکم کا منتظر رہتا ہے۔ اگر وہ لکھاری ہے تو کیا لکھتے وقت اسے یاد رہتا ہے کہ قلم کی عصمت کیا چیز ہے، اگر وہ بیوروکریٹ ہے تو کیا اس کے ماتھے پر محراب کا نشان روشنی بن کر لوگوں کی مشکلات کے اندھیرے دور کرتا ہے کہ نہیں، اگر وہ جرنیل ہے اور حضورؐ کے ذکر پر اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں تو کیا اسے یاد ہے کہ غزوہ احد میں درے کی حفاظت پر مامور جن پاک نفوس سے کوتاہی ہوئی تھی، اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا اور حضورؐ کتنے غم زدہ ہوئے تھے، اگر وہ سیاستدان ہے اور شرع کا پابند ہے تو کیا اسے علم ہے کہ ایفائے عہد کی کتنی تاکید قرآن مجید اور احادیث نبویؐ میں موجود ہے۔
لیکن یہ سب معزز لوگ ہیں، قابل احترام لوگ ہیں، ہمیں اُن کے ظاہر میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، ان کا ظاہر میرے ظاہر سے بہت اچھا ہے لیکن اندر سے میں کیا ہوں اور یہ کیا ہیں، یہ میں جانتا ہوں یا یہ اپنے بارے میں خود جانتے ہیں۔ ہمارے درمیان ایسے بہت سے لوگ ایک اور طرح کے بھی ہیں یہ خود کو سیکولر کہلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ رواداری عمل اور برداشت ہی ایک معاشرے کو آگے لے جا سکتی ہے وہ اس امر کی تبلیغ کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کے نظریات اور عقائد کے حوالے سے دلوں میں نفرتیں پیدا نہیں کرنا چاہئیں لیکن کیا ان لوگوں کا باطن بھی ان کے ظاہر کے مطابق ہے کیا یہ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں یہ دیکھے بغیر مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں کہ وہ کس نظریے کے لئے اپنی جان قربان کررہے ہیں؟
ہمارے ہاں بہت سے لوگ سماجی خدمت میں مشغول نظر آتے ہیں، کوئی تعلیم کے فروغ کے لئے کام کررہا ہے، کوئی بچیوں کے حقوق کی جنگ لڑرہا ہے، کوئی محبت کی شادی کو تحفظ دینے میں لگا ہوا ہے، کوئی منشیات کے خلاف جنگ میں مشغول ہے، یہ سب ظاہری طور پر بہت قابل قدر لوگ ہیں، اللہ انہیں جزائے خیر دے لیکن ہم نہیں جانتے ان میں سے کوئی این جی او بنا کر مغربی ممالک سے کروڑوں روپے کی ایڈ لیتا ہے، کیا دنیا میں کہیں کوئی لنچ فری بھی ہوتا ہے؟ یہ اگر کوئی جانتا ہے تو یہ معزز لوگ خود ہی جانتے ہوں گے ہم سب کی نظروں میں تو یہ عوام کے خدمت گار ہیں اور یوں قابل احترام ہیں۔
قارئین ہم لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ ایک دوسرے کے رازوں سے واقف نہیں ہیں ورنہ ہم کڑھ کڑھ کر مرجاتے اور ساری عمر بے اعتباری کی حالت میں بسر کرتے؎
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
مگر یہ بات ا قبال ہی کہہ سکتے ہیں ہم جیسے بے خبروں کا یہ مقام نہیں ہے۔ اور اب آخر میں ایک غزل
میں کڑی رات کی کمان میں ہوں
ایک دنیائے بے امان میں ہوں
لوگ اپنے ہی عشق میں پاگل
میں مریضوں کے درمیان میں ہوں
کوئی کیسے مجھے پڑھے، سمجھے
میں کسی اور ہی زبان میں ہوں
اپنا کردار تو نبھاتا ہے
میں محبت کی داستان میں ہوں
اور اسی میں اماں ملی ہے مجھے
میں ترے حسن بے امان میں ہوں
کیسے بے دخل کر سکو گے مجھے
میں تو کب سے اسی مکان میں ہوں
کٹ گیا ہوں زمین والوں سے
جب سے میں تیرے آسمان میں ہوں
اپنے ہونے کا کب یقین ہے مجھے
اپنے ہونے کے میں گمان میں ہوں
میں کہاں ڈھونڈتا پھروں گا تجھے
میں تو گم سم ترے جہان میں ہوں
میں کہ ہوں خوش گمانیوں کا اسیر
اور خود چشم بدگمان میں ہوں
دھوپ میں بھی مجھے ملے راحت
اس کی رحمت کے سائبان میں ہوں
جس کے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے عطاءؔ
وہ سمجھتا ہے کن فکان میں ہوں