مجھے آئے روز کسی نہ کسی شادی میں شرکت کرنا پڑتی ہے اور "منہ دکھائی" دیتے ہوئے ایسے ایسے منہ دیکھنا پڑتے ہیں جنہیں "دُرفٹے منہ" کہا جاتا ہے ایک دو لہا کو "منہ دکھائی" دیتے ہوئے تو میں نے یہ شرط عائد کی کہ وہ اپنے رخ زیبا سے سہرا نہیں ہٹائے گا کیونکہ موصوف کے ماتھے اور سر میں کوئی حدِ فاصل نہیں۔ بس ایک "رڑا میدان ہے" جو کسی کام کا نہیں بلکہ نرا صابن کا خرچہ ہے کیونکہ منہ دھوتے ہوئے سر بھی ساتھ دھونا پڑتا ہے، مجھے سہروں میں لپٹے ہوئے دولہا کچھ اچھے نہیں لگتے مگر اس روز محسوس ہوا کہ سہرا تو"ستار العیوب"ہے۔
ایک اور اسی قسم کے دولہا سے ان دنوں میری ملاقات ہوئی جو بہت خوش نظرآ رہے تھے۔ میں نے کہا ماشاء اللہ تم تو بہت خوش ہو مگر فریقِ مخالف کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے "وہ مجھ سے زیادہ خوش ہے"۔ میں نے کہا "وہ کیسے؟" بولے "وہ ایسے کہ تم نے مجھے دیکھا ہے اسے نہیں دیکھا"۔
انہی دنوں ایک اور "نوگرفتار" سے میری ملاقات ہوئی، موصوف اپنی رجائیت کے حوالے سے "مسٹر چیئرفل" جن کا ایک پائوں کٹ گیا تھا اور وہ اس پر بہت خوش تھے کہ آئندہ انہیں دو کے بجائے صرف ایک جوتا پالش کرنا پڑے گا چنانچہ میں نے انہیں راستے میں روک لیا اور پوچھا کہ شادی کے تجربے سے گزرنے کے بعد آپ کا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے، دوسری شادی کے بارے میں؟ میں ان کے اس سوال پر سٹپٹا گیا اور کہا "نہیں میاں میرا مطلب یہ ہے کہ شادی کرنا کیسا تجربہ ہے؟" بولے بہت اچھا تجریہ ہے، میرے خیال میں ہر اس شخص کو شادی کرنا چاہئے جو شادی کے علاوہ کچھ نہ کرسکتا ہو۔
کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ جس طرح نابینا حضرات کو کوئی اور کام نہ ملے تو وہ مسجد میں کوئی کام ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بی اے پاس کو دفتر میں نوکری نہ ملے تو وہ اسکول ٹیچر ہو جاتے ہیں اور ان دنوں کسی کو نان میڈیکل میں داخلہ نہ ملے تو وہ میڈیکل میں داخلہ لیتا ہے صرف فیس لاکھوں میں دینا پڑتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص زندگی میں جو کام کرنا چاہتا ہے وہ نہ کر سکے تو اسے شادی کرنا چاہئے اس کے بہت فائدے ہیں۔
مثلاً کیا فائدے ہیں؟ میں نے پوچھا۔
مثلاً یہ کہ سست سے سست انسان کو بھی سیر کی عادت ڈویلپ ہو جاتی ہے چنانچہ وہ شادی کے اگلے ہی مہینے گھر پر بیٹھنے کے بجائے صبح کے ناشتے سے پہلے دوپہر کے کھانے اور ہر رات کے کھانے سے پہلے سیر کے لئے گھر سے نکل جاتا ہے بلکہ لمبی سیر پر نکل جاتا ہے، اس سے اس کی صحت اچھی رہتی ہے کیونکہ ماہرین طب کے مطابق انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت آزاد نہیں آزاد فضا میں گزارنا چاہئے۔
بالکل ٹھیک ہے اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ؟ میں نے پوچھا۔ فی الحال تو یہی ایک فائدہ سوجھا ہے ویسے بھی میں رجائیت پسند ضرور ہوں مگر اتنا نہیں جتنا تم سمجھ بیٹھے ہو موصوف نے جواب دیا۔
چلو یہ تو ٹھیک مگر سیاسی پارٹیوں کے وعدے وعید کا اس سے کیا تعلق ہے۔
بہت گہرا تعلق ہے دوست نے کہا۔
ان دنوں سب سیاسی پارٹیاں ایک ہی قسم کے وعدے کئے جا رہی ہیں مثلاً سلامی نظام کا نفاذ، کرپشن کا خاتمہ، انسداد دہشت گردی و رشوت ستانی اور نوجوانوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ، یہ سب اچھی چیزیں ہیں حالانکہ اب ان کے بجائے اگر شہریوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرنے کے وعدے بھی کئے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا مثلاً کاروباری مراکز اور شہر کی معروف سڑکوں پر باتھ رومز کی تعمیر، رکشوں، موٹر سائیکلوں کے اترے ہوئے سائلنسر دوبارہ لگوانے کا وعدہ، ویگنوں میں گنجائش کے مطابق سواریاں بٹھانے کا وعدہ، فٹ پاتھ تجاوزات سے خالی کرانے کا وعدہ وغیرہ وغیرہ، یہ اور اس قسم کے دوسرے بیسیوں کام ہیں اگر سیاسی پارٹیاں وعدے وعید بانٹ لیں تو ان کی بڑی مہربانی ورنہ وعدوں کی بہتات سوائے اس کے کچھ کام کی نہیں کہ وعدوں کا ہی جنرل اسٹور کھول لیا جائے۔
میں نے یہ سب سنا تو کہا "اے میرے بھولے بھولے دوست سیاسی جماعتیں صرف وہ وعدہ کرتی ہیں جن کے پورے نہ کرنے پر وہ بیسیوں جواز پیش کریں جو مطالبات تم کر رہے ہو مثلاً معروف سڑکوں پر بیت الخلائوں کی تعمیر وغیرہ تو یہ تو ایک دن کے کام ہیں جو انہیں کرنا پڑیں گے مگر اسلامی نظام کا نفاذ اور اس نوع کے دوسرے وعدے تو برس ہا برس سے سیاسی اور دینی جماعتوں کا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ خصوصاً اسلامی نظام کے قیام کا وعدہ جس کے بارے میں خود دعویٰ کرنے والوں کو بھی یقین ہے کہ یہ وعدہ ان کی زندگی میں پورا نہیں ہو۔
آخر میں باقی احمد پوری کی ایک نہایت خوبصورت غزل
اتنا بھی خوش نہ ہو کہ عدو قید ہو گیا
دنیا سمجھ رہی ہے کہ تو قید ہو گیا
یہ انقلاب آیا ہے اب کے بہار میں
شاخ شجر میں ذوق نمو قید ہو گیا
نشتر لگا رہا ہوں کہ آزاد پھر سکے
دل کی رگوں میں میرا لہو قید ہو گیا
کچھ دن سے سوگوار ہے ماحول میکدہ
مینا تڑپ رہی ہے سبو قید ہو گیا
دامان تار تار لئے پھر رہے ہیں لوگ
جو شخص جانتا تھا رفو قید ہو گیا
باقی وہ رنگ نغمۂ بستی نہیں رہا
بلبل کے ساتھ حسن گلو قید ہو گیا