اترپردیش کے گاؤں ہیتھراس کے عصمت دری اور قتل کے واقعے نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں زیادتی کے واقعات کی اوسطاً 87 خبریں روزانہ رپورٹ ہوتی ہیں، اس واقعے نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح بھارت کا ہر ادارہ، پولیس، میڈیا اور سیاستدان خواتین کو ناکام بناتے ہیں۔ دارالحکومت کے صفدر جنگ ہسپتال میں، جہاں میں نے متاثرہ خاتون کے اہل خانہ سے ملاقات کی، اس کے چھوٹے بھائی سندیپ نے مجھ سے کہا: "ہم اکیلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔ میری بہن ابھی گھر سے مویشیوں کے لئے چارہ لانے گئی تھی۔ ہمیں وہ برہنہ حالت میں خون میں لت پت پڑی ہوئی ملی"۔ وہ 14 دن تک ہسپتال کے بستر پر پڑی زندگی کے لئے بہادری سے لڑتی رہی۔ اس کے اعضا ٹوٹے ہوئے اور وہ مفلوج تھی۔ حملہ آوروں نے اس کا گلا گھونٹنے کے لئے اسی کا سکارف استعمال کیا تھا، اس کی زبان کاٹ دی گئی تھی۔ روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی کرنے والے غریب والدین کی بیٹی کو شہر سے شہر اور ہسپتال سے ہسپتال پھرایا گیا۔ اس کے آخری الفاظ "مجھے گھر لے جاؤ" تھے۔ اس کے قتل نے بھارتی سسٹم کی شرمناک بوسیدگی عیاں کر دی ہے۔ ابتدا میں، میڈیا نے اس کیس کو نظرانداز کیا، کیونکہ وہ ایک فلم سٹار کی خودکشی کی خبر پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا۔ ہندوستان کا الیکٹرانک میڈیا صرف مقبول عام یا طوفان اٹھانے والی چیزیں ہی نشر کرتا ہے۔ اس معاملے میں، 19 سالہ متاثرہ لڑکی کو خبروں کا حصہ بننے کے لئے دم توڑنا پڑا۔ اس کی موت نے ملک بھر میں مظاہروں کی آگ بھڑکا دی۔
پولیس کا رویہ مکمل طور پر شرمناک رہا۔ مقتولہ ایک دلت والمیک تھی، جو ذات پات کی درجہ بندی میں سب سے نیچے ہے۔ مبینہ طور پر اس کی عصمت دری اور قتل کے چاروں ملزموں کا تعلق ٹھاکر برادری سے ہے، جو غالب یا "اعلیٰ" ذات ہے اور ان کو تاریخی طور پر مظلوم دلتوں پر طاقت اور ظلم و جبر کا حق حاصل ہے۔ ذات پات کے نام پر دنگے فساد کے خدشات کا دعویٰ کرتے ہوئے، پولیس نے آدھی رات کو مقتولہ کے والد یا والدہ کو شمولیت کی اجازت دیئے بغیر زبردستی اس کی آخری رسومات ادا کر دیں۔ مضحکہ طور پر ایک سینئر پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ فرانزک رپورٹ کے مطابق اس لڑکی کی عصمت دری نہیں کی گئی۔ میں نے ان ڈاکٹروں سے ملاقات کی جنہوں نے متاثرہ لڑکی کی دیکھ بھال کی، انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں عصمت دری کو خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا، بلکہ متاثرہ کے نمونہ جات لینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی۔
پولیس نے میڈیا کو اس کیس کی تفصیلات شائع کرنے سے روکنے کی بھی کوشش کی۔ میڈیا کو متاثرہ افراد کے گاؤں سے ایک میل کے فاصلے پر 48 گھنٹوں تک روکے رکھا گیا۔ اس کی موت کے دو دن بعد، متعدد بار ناکامی کے باوجود میں نے فیصلہ کیا کہ اس گاؤں ہیتھراس پیدل جانے کی کوشش کروں۔ میں ہائی وے کے ساتھ ساتھ چاول اور باجرے کے کھیتوں سے ہوتی ہوئی اس کے گاؤں پہنچی تو اہلکاروں نے مجھے اٹھا کر پولیس وین میں ڈالا اور گاؤں سے باہر لا کر اتار دیا۔ جب ہم شاہراہ پر کھڑے تھے تو ایک نوعمر کھیتوں میں سے بھاگتا ہوا آیا، جو مجھے ملنے کے لئے بے چین تھا۔ اس نے کہا، "میرے چچا نے مجھے بھیجا ہے"۔ اس نے یہ بتاتے ہوئے کہ وہ مقتول کا کزن تھا، اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں پولیس اہلکار اسے دیکھ تو نہیں رہے۔"ہم نظر بند ہیں، ہمارے فون بند کر دیئے گئے ہیں اور پولیس نے ہمیں میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا ہے۔"
ہم بے شک یہ کہتے رہیں کہ ہمیں ذات پات پر یقین نہیں لیکن ذات پات کی بالادستی حقیقی ہے۔ اعلیٰ ذات کے حلقوں میں، مجھے متعدد مردوں نے مقتولہ اور ایک ملزم کے مابین ناجائز تعلقات کا کہا۔ میرا کہنا تھا کہ اس کے اہلخانہ کو بتانے دیں وہ کیسے ماری گئی۔ اس جرم میں ملوث افراد کی حمایت میں مظاہرے کیے گئے۔ ذات پات اور ریاستی طاقت کے زور پر ان کو استثنیٰ دینے کی بات کی گئی۔ اترپردیش میں، "ٹھاکر واڈ" یا ذات پات کے اشرافیہ کی حکومت کے کلیدی عہدوں پر موجودگی کوئی اتفاق نہیں ہے۔ دریں اثنا، متاثرہ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اب ان کے لئے گاؤں میں رہنا محفوظ نہیں ہے۔ مقتول خاتون کی والدہ نے مجھ سے سرگوشی کی، "وہ ہمیں مار ڈالیں گے، "۔ گاؤں کے دوسرے دورے پر، اس کا چہرہ شعوری طور پر اس کی ساڑھی سے چھپا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے سے، وہ کبھی مضبوطی سے، کبھی آنسوؤں کے ساتھ بات کرتی۔ وہ اپنے گھر کے چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں مٹی کے فرش پر بیٹھی تھی۔ ایک چھوٹا گیس کا چولہا، ایک سلنڈر، مٹھی بھر اسٹیل پلیٹیں اور گلاس اس کے آس پاس بکھرے پڑے تھے۔
وحشت سے غافل ایک نوزائیدہ معصوم بچہ اس کے پاس کھیل رہا تھا۔"ٹھاکروں نے ہمیں پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا ہے، اگر ہمارے کسی لڑکے کو کوئی تکلیف پہنچی تو ہم تم لوگوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے"۔ اس معاملے نے ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہماری سپر پاور بننے کی تمام خواہشات اور ترقی کے باوجود قرون وسطیٰ کی ذات پات کی شناخت اب بھی کروڑوں ہندوستانیوں کو سزا دیتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ خواتین کا کبھی یقین نہیں کیا جاتا، ذات پات کے نظام کے انتہائی نچلے درجے میں پیدا ہونے والی غریب خواتین اس سے بھی بدتر ہیں۔ کہانی ایک سیاسی سرکس بن رہی ہے۔ سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ سانحہ کی مرکزی کردار لڑکی اپنی ہی کہانی میں کہیں گم ہوگئی ہے۔ اس کی والدہ نے بتایا، "ملزموں کی طرف سے مجھے اس معاملے کو حل کرنے کے لئے 20 لاکھ روپے کی پیش کش ہوئی ہے۔ میں ایک پیسہ نہیں چاہتی۔ صرف میں اپنی بیٹی کے لئے انصاف چاہتی ہوں۔