وزیرِ اعظم عمران خان غالباََ پہلے منتخب حکمران ہیں کہ جن کو غیر معمولی عوامی پذیرائی کے ساتھ ساتھ اداروں کا بھی بھر پور تعاون حاصل ہیں۔ ہم آپ جسے تعاون سمجھتے ہیں، جمہوریت نواز لبرلز، مذہبی انتہا پسند اور پی ڈی ایم میں شامل جما عتیں اسے گٹھ جوڑ، کہتے ہیں۔ اداروں سے ان سب کا مطالبہ ہے کہ ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لے کر برسرِ اقتدار آ نے والے عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ ہٹاتے نہیں توجمہوری حکومت کی مخالفت میں کم از کم کوئی ایک سرگوشی، ایک آدھ بیان، کو ئی ایک ایسا ٹویٹ ہی جاری کر دیا جائے کہ جس کے نتیجے میں یہ سمجھا جائے کہ ادارے حکومت کی پشت پر نہیں کھڑے۔
نواز حکومت کا سایہ سمٹا توملک کی معیشت شدید دباؤ میں تھی۔ قرضوں میں جکڑے ملک کوسود کی ادائیگی کیلئے بھی وسائل دستیاب نہیں تھے۔ نئی سرکار کی کوشش تھی کہ آئی ایم ایف سے بچا جا سکے۔ مخمصے میں تاخیر کے اپنے نتائج برآمد ہوئے۔ مہنگائی کا طوفان امنڈ آیا۔ کاروبارتھم کر رہ گیا۔ بیرونی اور اندرونی گِدھ سانس روکے سروں پر منڈلانے لگے۔ دوست ملکوں سے منت سماجت کے بعد کچھ رقم لے کر حکومت مالی بحران سے نبرد آزما ہونے میں مصروف تھی کہ سال نے کروٹ لی اور کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو آن لیا۔ جس آفت کے اندر عالمی معیشت سکڑ کر رہ گئی ہو، وہاں پاکستان کا کیا سوال۔ اسی دوران، ایک کے بعد ایک بحران سر اٹھانے لگا۔ آٹا، چینی، دوائیاں اور پھر پٹرول کی قلت۔ کچھ نا تجربہ کاری توکچھ کئی عشروں سے نظامِ حکومت میں سرطان کی طرح سرایت کر جانے والے مافیا کا اثر ورسوخ۔ شور مچانے والوں میں مگر سب سے آگے وہی رہے کہ جن کے ہاتھوں ہماری یہ درگت بنی۔
خدا کا شکر کہ وبا کی پہلی لہر نے ہمارے ہاں وہ تباہی نہیں مچائی کہ جس کا شکار دنیا کے بیشتر ممالک اپنی مکمل لاک ڈائون کی پالیسی کی بنا پر ہوئے۔ ہمارے ہاں وبا سے نمٹنے کے لئے عسکری اداروں کی طرف سے این ڈی ایم اے اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی جیسے اداروں کے ذریعے وبا سے نبرد آزما دیگر حکومتی اداروں کو بھر پور تعاون فراہم کیا۔ یکسو قومی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود حالات یوں نہیں بگڑے جیسے آس پڑوس کے ممالک میں دیکھنے کو ملے۔ حال ہی میں معاشی اشارئیے سسکتی معیشت میں نمو کی نوید سنانے لگے ہیں۔ حکومت کے تعمیراتی صنعت کو دیئے گئے پیکج کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کل کی خبر ہے کہ صنعتی سرگرمیاں بحال ہو جانے کی بناء پر دنیا بھر کو در پیش مشکلات کے باوجود ہماری معاشی شرح نمو کے مثبت ہو جانے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اگرچہ کرونا وبا کا مہیب سایہ سروں سے ابھی چھٹا نہیں، تاہم ملک آفت کا مقابلہ کرنے کے لئے وبا کی پہلی لہر کی نسبت بہتر حالتِ تیاری میں ہے۔ شاید یہ سب اسی ہائبرڈ نظام کا کیا دھرا ہے کہ جس کا شکوہ ہے۔ چنانچہ مینارِ پاکستان کے نیچے کھڑے ہو کر اگرچہ کھل کر اظہار نہیں کیا گیا تاہم مولانا فضل الرحمٰن کا مطالبہ تو یہی ہے کہ ادارے حکومت کی پشت سے ہٹ جائیں۔ بھلے اعلان نہ کریں، کم از کم اشارہ تودے دیں۔ لاہور کے جس تاریخ ساز جلسے کا شدّت سے انتظار کیا جا رہا تھا، یقینا اس میں لاہوریوں نے اس تعداد میں شرکت نہیں کی جس حد تک ہمیں امید دلائی گئی تھی۔ ہو سکتا ہے یہ میرا محض گمان ہو، تاہم مجھے تو سٹیج پر بیٹھے اکابرینِ کرام کے چہروں سے یہی تاثر ملا ہے۔ سہیل ورائچ صاحب جیسے باخبراور معقول صحافی کا خیال تھا کہ لاہور کا جلسہ بہت بڑا ہو گا، کیونکہ ان کے خیال میں مریم نواز ایک بہت بڑی کرائوڈ پُلر، بن کر سامنے آچکی ہیں۔ جلسے کے بعد سہیل وڑائچ صاحب ہی بتا رہے تھے کہ اس جلسے کا تقابل عمران خان کے اکتوبر 2011ء والے جلسے سے ممکن نہیں ہے۔ بے نظیر والے جلسے سے تو ہر گز نہیں۔ غیر جانبدار مبصرین میں سے اکثریت کی یہی رائے ہے۔
حالیہ دنوں میں مگر مریم نواز کے بارے میں تاثر تو کچھ یوں پیدا کیا گیا تھا کہ عمران خان حکومت کے سامنے وہی ایک حقیقی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ایک جید تجزیہ کار نے بلاول بھٹو کو ان کی بی ٹیم قرار دیا تھا۔ نفرت میں غرق، ہمہ وقت حالتِ اشتعال میں پائی جانے والی خاتون، کیمروں کے سامنے شائستگی سے بات کرنا جن کے نزدیک جیسے کمزوری کی نشانی ہو۔ ڈان لیکس اور ممبئی حملوں میں مبہم الزام تراشی سے شروع ہونے والا سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ فیٹف کی قانون سازی ہو، بالاکوٹ فتح کے اثرات کو زائل کرنا ہو، یا حال ہی میں بھارتی دہشت گردی سے متعلق ثبوتوں کے عام کئے جانے پرایک سابق وزیرِ اعظم کی جانب سے اٹھائے جانے والاناقابلِ فہم ا عتراض ہو، مریم نواز اور ان کے قریبی ساتھی گویا ذاتی اورقومی مفادات میں تمیز بھول گئے ہوں۔ بد قسمتی سے قومی اداروں کے خلاف اس معاندانہ مہم میں وہ تمام ملکی و غیر ملکی عناصر مریم نواز کی غیر مشرو ط ہلّہ شیری پر کمر بستہ نظر آتے ہیں کہ جن کی سیاسی، صحافتی اور دیگر سرگرمیاں انڈین کرانیکلز، میں واشگاف ہونے والے احداف اور مقاصد سے ہم آہنگ ہیں ۔ حالیہ کچھ سالوں سے اپنے تئیں غیر جمہوری قوتوں، کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہو جانے والے انگریزی اخبار کے ایک سابقہ ایڈیٹر، جنہوں نے گذشتہ کئی سالوں سے ہر اتوار شاید ہی کسی اور موضوع پر لکھا ہو، کچھ عرصے سے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے مریم نوازکی شعلہ نوائی پر دائو کھیل بیٹھے تھے۔ تاہم جب محض جلسوں پر مشتمل تحریک مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام نظر آئی تو اپنے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے تمام امیدیں اب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اوروہاں دھرنے سے وابستہ کر لی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مریم اور بلاول کو مولانا کی افرادی قوت دستیاب ہوگی۔ غالب گمان یہی ہے کہ مجوزہ لانگ مارچ اور دھرنے کے لئے افرادی قوّت کا سرچشمہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس ہی ہوں گے۔ خاکی شلوا رقمیضوں میں ملبوس انصار الاسلام فورس، کے لٹھ بردار جتھے اور فوجی افسروں کے لئے خاص ٹوپیاں (peak caps) اوڑھے باریش کمانڈرز، جو سٹیج پر مولانا کے دائیں بائیں کھڑے نظر آتے ہیں، غالباََ انہی مدرسوں سے پاس آئوٹ، ہوئے تھے۔ تاہم جمہوریت پسند لبرل قبیلے، کو بظاہر اس سے کوئی غرض نہیں کہ اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے افرادی قوت کہاں سے آتی ہے۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ مینارِ پاکستان پر جلسے میں جہاں لاہوری اندرونِ شہر سے پیدل جلسہ گا ہ تک ٹولیوں میں آتے جاتے رہے، انصار الاسلام کے جتھے اور مدارس کے طلباء، دور ایک متعین مقام پر بسوں سے اترتے اور منظم انداز میں قطار اندر قطار جلسہ گاہ پہنچتے رہے۔ میلوں ٹھیلوں کے شوقین لاہوریوں کیلئے پی ڈی ایم کا جلسہ بھی ایک میلہ ہی تھا۔ چنانچہ لندن میں بیٹھے قائدِ عزیمت کی آزردہ خاطر تقریر شروع ہونے سے بہت پہلے وہ گھروں کو لوٹ آئے۔ لاہور کے جلسے نے ثابت کیاہے کہ مجوزہ لانگ مارچ میں مریم اور بلاول کی حیثیت شوبوائز، سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اندازہ ہے کہ اسلام آباد پر لشکر کشی اور یک نکاتی حدف کے حصول میں کامیابی یا ناکامی کا انحصار انصارالاسلام کے کمانڈرز کی پیشہ ورانہ کارکردگی پر ہوگا۔