لگ بھگ دوعشرے قبل چار جرنیلوں نے جو کام کیا، اس کا جوازکچھ بھی ہو، کارگل پاکستان کے لیے بے جا سبکی کا سامان بنا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا سب دوش چار مہم جو جرنیلوں کا تھا؟ کیا اس وقت کے وزیراعظم اسی قدر معصوم تھے کہ جس قدر وہ خود کو بتاتے ہیں؟
لیڈر شپ کے آفاقی اصولوں میں سے ایک، لیڈر کا ناکامی کی ذمہ داری کو قبول کرنا ہے۔ کامیابی اپنے سر لینے اور ناکامی دوسرے کے سرتھوپنے والے افراد کچھ بھی ہوسکتے ہیں، لیڈر نہیں ہو سکتے۔
بھارت کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کے پیش ِ نظر، مئی 1965ء میں بھٹو نے صدر ایوب کو لکھا کہ یہی وقت ہے پاکستان کشمیر کا مسئلہ فوجی طاقت کے ذریعے حل کرسکتا ہے۔ بھٹو صاحب اور ان کے سیکرٹری خارجہ کا تیار کردہ پالیسی پیپر آپریشن"جبرالٹر" کی بنیا د بنا۔ اپنی وزارت کے دیگر ارکان کو بے خبر رکھتے ہوئے، دونوں اصحاب مصر تھے کہ" مجاہدین " کو کشمیر میں گھسا کر وادی میں شورش برپا کی جائے۔ بعد ازاں، پاکستانی دستوں نے اکھنور اوربالآخر سری نگر پر حملہ آور ہوناتھا۔ منصوبہ سازوں کو اس دوران بھارت کی طرف سے کسی شدید ردِ عمل کی توقع نہیں تھی کہ منصوبے کا بنیادی مقصدمحض بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا۔ جنرل موسٰی نے آپریشن کی مخالفت کی تو ائیر فورس اور نیول چیفس نے بے خبری کا گلہ کیا۔ صدرایوب خود بھی تذبذب کا شکار تھے، مگر بالآخر منصوبے کی منظوری دے بیٹھے۔ آپریشن کی تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں کہ اس کا انجام اب تاریخ کا حصہ ہے۔ آپریشن "جبرالٹر" اور " گرینڈ سلیم"اور اس کے نتیجے میں چھڑنے والی جنگ کے لیے آج تک صدر ایوب کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے۔ ٹھہرایا بھی جانا چاہیئے کہ ایوب خان ہی پاکستان کے صدر تھے۔
سوال مگر یہ ہے کہ 1965ء میں اگر صدر ایوب کو آپریشن" جبرالٹر"سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا تو 1999ء کے وزیرِ اعظم آپریشن "کوہ پیما" کی ذمہ داری سے اپنا دامن کیسے بچا سکتے ہیں؟ تین عشرے جس ایٹمی پروگرام کو سول و عسکری اداروں نے اپنے پروں میں رکھ کر سینچا، 1998ء میں محض دھماکوں کا اعلان کر کے میاں صاحب اس کا سارا کریڈٹ خود لیتے ہیں۔ کارگل کی ناکامی سے وہ کیونکر پہلو تہی کر سکتے ہیں۔؟
کارگل پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جنوری 1999ء میں لائن آف کنٹرول پر" مجاہدین"کی" تازہ سرگرمیوں "سے متعلق پہلی بریفنگ میں وزیراعظم نواز شریف کو کسی نہ کسی صورت سری نگر۔ لہہ شاہراہ کاٹے جانے کے منصوبے سے سرسری طورپر ہی سہی مگر آگاہ ضرور کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو مارچ کے مہینے میں کشمیر پر ایک اوربریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ مجاہدین کی کارروائیاں پاکستان کو بھارت سے مذاکرات میں بہتر پوزیشن میں لے آئیں گی۔ وزیراعظم نے اس پہلو سے ا تفاق کیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ پیچیدہ فوجی نقشوں پردی جانے والی بریفنگ کے دوران وزیرِ اعظم بات کو پوری طرح سمجھ نہ پائے۔ یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے بات وزیرِ اعظم کو سمجھانا تھی وہ وزیرِ اعظم کو بات سمجھانا نہیں، محض ان کے کانوں سے گزارنا چاہتے ہوں۔ بھارتی مصنف تلک دیواشر اپنی کتابپاکستان۔ ایٹ دی ہلم، میں بتاتے ہیں کہ کشمیر پاکستانی فوج کے اعصاب پر سوار ہے۔ چنانچہ کشمیر کی آزادی کے لئے اسی طرح کے منصوبے صدر ضیاء الحق اور وزیر اعظم بے نظیر کے سامنے بھی رکھے گئے تھے۔ دونوں مگر زیرک تھے، معاملے کی تہہ میں اتر گئے۔ منصوبہ پیش کرنے والے متوقع بھارتی ردّ عمل پر ہر دو کو مطمئن نہ کر سکے۔ دروغ برگردنِ راوی، بتایا جاتا ہے کہ کارگل پر دی جانے والی ابتدائی بریفنگز میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی زیادہ تر توجہ سامنے رکھی گئی اشیائے خورد و نوش سمیت دیگر امورپر مرکوز رہتی۔
مئی 1999ء کے دوران بھارتی پریس نے پہلی بار پاکستان کے حمایت یافتہ "مجاہدین"کی بھارتی علاقے میں موجودگی کی خبر عام کی۔ 17 مئی 1999ء کو اوجڑی کیمپ میں وزیراعظم پاکستان کو آپریشن "کوہ پیما "سے متعلق پہلی باضابطہ بریفنگ دی گئی۔ نسیم زہرہ کی فرام کارگل ٹو کُو، میں درج اس بریفنگ کی تفصیلی روداد کے مطابق سیکرٹری دفاع جنرل افتخاراگرچہ خاموش رہے، وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور جنرل مجید ملک پیش کردہ منصوبے پر مگر بہت مضطرب ہوئے۔ تاہم جب جنرل عزیز نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سر، قائد اعظم کے بعد تاریخ نے صرف انہی کو فاتح کشمیر، بننے کا موقع فراہم کیا ہے، ، تووزیر اعظم نے آپریشن کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مجاہدین، کی کامیابیوں پر بھرپور اطمینان اور نیک تمّنائوں کا اظہار کیا۔ فیصلہ ہوا کہ آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے مجوزہ منصوبے کو DCC کی خصوصی میٹنگ میں زیرِ بحث لایا جائے۔
فاتح کشمیر کے نام سے یاد رکھے جانے کا خواب دیکھنے والے میاں صاحب نے کچھ دن بعد نتائج اپنی خواہش اور چار جرنیلوں کے دعوئوں کے برعکس برآمد ہوتے دیکھے، تو ہاتھ پائوں کا پھولنا فطری تھا۔ جولائی کے پہلے ہفتے میں مجوزہ ڈی سی سی کی میٹنگ ملتوی کرتے ہوئے، جاتی امر ا میں اپنے والد اور برادرِ خورد سے مشاورت کے بعد میاں صاحب نے اچانک صدر کلنٹن سے ملنے کی درخواست کر دی۔ کہتے ہیں جب زمین تپتی ہے تو بلّی اپنے بچوں پر پائوں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ بحرانی لمحوں میں کچھ یہی رویہ ہمارے اس وقت کے وزیرِ اعظم کا بھی تھا۔ 4 جولائی 1999ء والے دن میاں صاحب صدر کلنٹن سے تنہائی میں ملنے پر بضد تھے۔ واشنگٹن پہنچنے پر ان کو بار باربتایا گیا کہ وہ چاہیں تو تنہا آجائیں، امریکی صدر کو مگرغیر ملکی سربراہوں سے تنہائی میں ملا قاتیں کرنے کی سہولت دستیاب نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ میاں صاحب اپنے ہر دور حکومت میں سلامتی امور بالخصوص پاک بھارت تعلقات کے باب میں عالمی رہنماوں سے خفیہ یا کم از کم اکیلے میں ملاقاتوں پرہی کیوں مصررہتے ہیں!
اکتوبر 1999ء تک میاں صاحب نے اپنے بیشتر قریبی ساتھیوں بشمول شہباز شریف اور چوہدری نثار پر بھی بھروسہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ 12 اکتوبر کی شام پرویز رشید اور حسین نواز ہی میاں صاحب کے ہمدم و ہمراز تھے۔ لگ بھگ اکیس سال بعد پرویز رشید اب حسین نواز نہیں بلکہ مریم نواز کے اتالیق ہیں۔ لندن میں بیٹھے میاں صاحب آج بھی مگر اَوروں کو ہی کوس رہے ہیں۔