اپنی نوجوانی میں میاں صاحب زندگی کے ہر شعبے میں ناکام ہوتے ہوئے نظر آئے تو والد صاحب نے انہیں جنرل جیلانی کے حوالے کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن وطنِ عزیز میں آئے روز پیدا ہونے والی ہر ہیجانی صورت حال کے اندر میاں صاحب کو ایک دائمی فریق کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ میاں صاحب کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پرچی کے بغیر ایک جملہ ٹھیک سے نہیں بول سکتے، آدھے صفحے سے زیادہ جو تحریر پر توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، انہی میاں صاحب نے بڑے بڑے طاقتورافراد کو ان کے مقتدر اداروں سمیت کم و بیش تین عشروں سے آگے لگا رکھا ہے۔ جنرل مشرف کو میاں صاحب کس طرح جُل دینے میں کامیاب ہوئے، یہ قصہ ابھی کل کی بات ہے۔
پچھلے برس کے کسی مہینے، جسٹس کھوسہ نے جیل میں بندشدید ذہنی دبائو کے شکار قیدی کو اسی قدر شدید انسانی ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہوکر کچھ ہفتے گھر گزارنے کی انوکھی رعایت عطا کی تھی۔ رہائی ملی تو عام خیال یہی تھا کہ قیدی عافیت پا کر گھر میں سستاتا ہوگا۔ کسے معلوم تھا کہ ضمانت پر رہائی کے انہی دنوں، قیدی کو سزا سنانے والے جج سے جاتی عمرہ میں معاملات طے پا رہے تھے۔ اکتوبر میں قیدی کو ایک بار پھر بیماری، نے آن گھیرا تو اس بار انسانی ہمدردی، کے تحت اسے جیل سے اٹھا کر لندن پہنچاد یا گیا۔ طاقتور عہدوں پر فائز ہونے والوں کو میرے آپ جیسے عامی بہت زیرک اور سمجھدار جانتے ہیں۔ بار بار مگر ثابت ہوا کہ میاں صاحب کے سامنے سبھی پانی بھرتے ہیں۔
بغاوت کا مقدمہ درج کرنے والے نے بھی تو کمال ہی کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت میں اکثریت ناتجربہ کاروں کی ہے۔ تاہم اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود حکومت میں کون ایسا بدھو ہے جو اس بے ہودہ درخواست کے پسِ پشت ہو گا! وزیرِ اعظم آزاد کشمیر اور تین جرنیلوں سمیت 'ن لیگ' کے چالیس سر کردہ رہنمائوں کو بغاوت کے الزام میں لپیٹنا ا س قدر سادہ معاملہ ہر گز نہیں۔ پورا دن تو مرکزی اور صوبائی حکومتیں بوکھلائی پھرتی رہیں، کہیں رات گئے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا۔ پوری پی ٹی آئی اس بے سروپا ایف آئی آر کے نتیجے میں بیک فٹ پر کھیلتی رہی، دبدبائی ہوئی ن لیگ مگر یکایک پھن پھیلا ئے کھڑی ہوگئی ہے۔ وہ جنہوں نے اپنا سرکاری جہاز مطلوب ملزم کو لندن فرار کروانے کے لئے استعمال کیا تھا، اس ایف آئی آرمیں نامزد افراد کی گرفتاری کے لئے دن بھر حکومت کو للکارتے رہے۔ اس ایف آئی آر کے بعدسید مشاہد حسین جیسے متین شخص نے قائدِ اعظم کی آئینی جدوجہد، بھگت سنگھ کی حریت پسندی اور میاں صاحب کیبغاوت، کو ایک ہی ٹویٹ میں پرو کر رکھ دیا۔ بدر رشید کی پراسرار درخواست کا بنیادی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کرپشن کا بیانیہ کم از کم وقتی طور پر پسِ پشت چلا گیا ہے۔ بد عنوانی میں سزا یافتہ شخص اب ریاست کو مطلوب مجرم نہیں، آئین اور قانون کی بالا دستی کی فیصلہ کن جنگ لڑ نے والا باغی ہے۔
انگریزی اخبار میں ہر اتوار کو سپین میں مقیم ایک شخص کا مضمون چھپتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ جو سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہے۔ پاکستانی معاشرے میں افواجِ پاکستان کے کردار کے سوا جسے کوئی اور برائی نظر نہیں آتی۔ اس جیسے کئی اب نواز شریف اور مریم نواز سے اپنی تمام امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں لہو لہان بغاوت کے جو منتظر ہیں۔ خود کو یہ لبرل جمہوریت پسند کہتے ہیں، لیکن اسلام آباد کو مذہبی انتہا پسندوں کے لشکر کے ذریعے فتح کرنے کے خواہش مند ہیں۔
لبرل جمہوریت پسندوں کا معاملہ بھی بہت دلچسپ وعجیب ہے۔ لبرلز کا ڈھونگ رچائے ہوئے چند چھٹے ہوئے مفا د پرستوں کو چھوڑ کر، ان میں سے اکثر متروک بائیں بازو سے وابستہ رہے ہیں۔ پرلے درجے کے جو رومان پرست ہوتے تھے۔ حقیقت سے کوسوں دور جینے والے۔ کہا جاتا ہے، اٹھارہ سال کی عمر میں آپ اشتراکی نہیں تو آپ کا سینہ دل سے خالی ہے۔ تاہم چالیس برس کے ہو کر بھی بائیں بازو سے وابستہ رہتے ہیں تو آپ کی کھوپڑی مغزسے خالی ہے۔ چار عشرے قبل کوئٹہ میں دورِ لفٹینی کے دوران بائیں بازو کے قوم پرستوں کے دور دراز علاقے میں منعقدہ ایک جلسے میں کی گئی ایک تقریر کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کو ملا۔ روسیوں سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ گوادر پر بندرگاہ تعمیر کر کے آزاد بلوچستان کے حوالے کر دی جائے!
بائیں بازو والے ایسے رومان پسند اب زیادہ تر متروک ہوچکے ہیں۔ ان کی جگہ لبرل جمہوریت پسندوں نے لے لی ہے۔ یہ کائیاں لوگ ہیں۔ سرخوں کی طرح مغربی استعمار کو للکارتے نہیں، عافیت کے لئے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ سلامتی کے اداروں کے خلاف متحرک نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ان لبرلز کو کسی زمانے میں قبائلی علاقوں میں بر سرِ پیکار پاکستانی افواج پر دبائو بڑھانے کی خاطر کرائے پر لیا گیا تھا۔ بین الاقوامی بد اعتمادی کے اسی ڈو مور، دور میں لگ بھگ دو سو قبائلی نوجوانوں کو بھی مغربی دارالحکومتوں میں لے جایا گیا تھا۔ وطن لوٹ کر جنہوں نے پاکستانی اداروں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ پی ٹی ایم جیسی بظاہر قبائلی علاقوں میں تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم راتوں رات یونہی وجود پذیر نہیں ہوگئی۔ اس تنظیم کے ان بھگوڑے کارندوں کو مغربی دارلحکومتوں میں امان بے وجہ نہیں ملتی، واشنگٹن میں مقیم حسین حقانی جن کے قطب ہیں۔ مخصوص تجزیہ کاروں اور رپورٹرز کا آپسی ربط محض اتفاق پر مبنی نہیں ہے۔ سیاست اور انصاف کے سیکٹرز کے اندر جانے پہچانے چہروں کے ساتھ ان کے گہرے رابطے ہیں۔ اپنی صحافتی رپورٹوں، تجزیوں، ٹویٹس او ر قراردادوں کے ذریعے سلامتی کے اداروں کو مطعونٹھہرانے کا کوئی موقع جو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تاہم خطے میں حالات اب کچھ بدل چکے ہیں۔
شاہین صہبائی صاحب کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نواز شریف صاحب پاکستان کی سلامتی کے اداروں کے خلاف اپنی جارحانہ مہم میں واشنگٹن سے تعاون کے طلب گار ہوئے تو فی ا لحال ان سے معذرت کر لی گئی ہے۔ تاہم اندازہ یہی ہے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی ایک مناسب ڈیل ملنے تک ہمارے اداروں کے او پر دبائو برقرار رکھیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ادارے اس بار بھی ان کے دبائو کا سامنا کر سکتے ہیں یا نہیں۔