حجاج بن یوسف نے جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نواسے سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما کے جسدِ اطہر کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور دھڑ خانہ کعبہ پر لٹکادیا تو تاریخ کے اوراق تیزی سے پلٹے اور پھر خون میں لت پت حجاج اپنوں ہی کے گھاؤ کھاتا، تڑپتا نظر آیا۔
ورق پھر پلٹا اور عمر بن عبدالعزیز کا چہرہ بنو امیہ کے داغ دھوتا دکھائی دیا……..عجب مردِ دل آور تھا جس نے ماضی کا حال سے ڈھائی برس تک رشتہ جوڑے رکھااور اپنے طرز حکومت کو "خلافت راشدہ" سے تعبیر کرایا مگر ایک بار پھر بھلائی نے دنیا کو پشت دکھلائی اور عمر ثانی کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔
بعدازاں غباربادہ گرد سے سفاح کا چہرہ نمودار ہوا، جس نے انسانی نعشوں پر خلافت عباسیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ قصہ مگر اُس کے ظالم بھائی منصور کا ہے، جس نے نفس ذکیہ کو شہید کرنے کے بعدامام اعظم ابوحنیفہ کو پہلے بازاریوں اور درباریوں سے ذلیل کرایا(العیاذ باللہ) انھیں فحش ترین گالیاں دیں تاکہ وہ خلافت عباسیہ کے سامنے سرنگوں ہوجائیں اور جب کچھ نہ بن پڑا تو زندان کی تاریکیوں میں دھکیل دیا مگر ابھی ایک خلوت نشین باقی تھا، مدینے سے گونجنے والی ایک آواز ابھی آزاد تھی اور منصو ر اُسی آواز کے درپے تھا۔
منصور نے اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو اس صدائے بازگشت کی بیخ کنی کے لیے عامل بنا کر مدینہ منورہ روانہ کیا……..وہ مدینہ جہاں کثافت نہیں ہوتی، جہاں کی فضائیں معطر و منورکہلاتی ہیں، بس انسان، انسان میں فرق ہوتا ہے……..اگر دماغ پر نفرت و حسد کی تہہ چڑھ جائے تو کمینے بھی مدینے میں سازش کے لیے وارد ہو ہی جاتے ہیں ……..جعفر نے دیکھا کہ ایک مرد آزاد ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں کہ جو سرجھکائے آداب سے بیٹھے تھے، درس حدیث دے رہا تھا، چہرہ اقتدار پر رنگ و ملال اُبھرا کہ "کمال ہے، میرے آنے سے بھی مجمع پر کوئی اثر پڑا، نہ امام مدینہ کی آواز میں تکریمی سلام سنائی دیا۔
وہ اپنے آپ کو ایک حقیر انسان سمجھنے لگاجیسے کہ تنہا اپنی ذات کاتماشائی ہولہٰذا فاسد خیالات نے سر ابھارا اور بلند آواز میں ایک سوال پوچھ ڈالا……..امام مدینہ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات مرتب ہوئے اور انتہائی دھیمے لہجے میں گویا ہوئے "اے شخص! یہ محفل حدیث ہے، کیا تم نے قرآن کا یہ حکم نہیں سناکہ لوگوں اپنی آوازیں نبیﷺ کی آواز سے بلند مت کرو، معاذ اللہ میری آواز نبی کی آواز نہیں ٹگر جب بھی کوئی حدیث بیان کی جائے تو یہی سمجھو کہ درپردہ رسول کریم ﷺ ہی تم سے مخاطب ہیں!"
بالآخر درسِ حدیث ختم ہوا، لوگ اپنے اپنے مسائل قدرے بے تکلفانہ لیکن حد ادب میں رہتے ہوئے بیان کرنے لگے……..جعفر بھی اپنا ایک "سازشی مسئلہ"لے کرآیا تھا لیکن اُسے اُس وقت ہزیمت کا سامنا اٹھانا پڑا کہ جب تمام سائلین کے جوابات دے دیے گئے تو مرد حق نے اُسے سوال کرنے کی اجازت دی، امام مدینہ بلندی پر تھے اور عامل مدینہ ایک سائل کی مانند نیچے بیٹھا تھا…….ہاں سوال کرو اب تمہیں موقع دیا جاتا ہے، امام مدینہ نے محبت سے فرمایا……..جعفر بن سلیما ن نے لب کشائی کی کہ "پوچھنا چاہتا ہوں کہ جبری طلاق کی آپ کے نزدیک کیا حقیقت ہے؟ " لہجے میں تمکنت اور غرور نمایاں تھا تاہم مرد فقیہ گستاخی پر خفا نہیں ہوا کیونکہ سوال ذاتی نوعیت کا تھا اس لیے چہرہ بزرگ پر غیر معمولی ٹہراؤ تھا……..آپ نے فرمایا "میرے نزدیک جبری طلاق، طلاق نہیں ہے" لیکن امام ابو حنیفہ توجبری طلاق تسلیم کرتے ہیں۔
جعفر بن سلیمان نے "فسادی دلیل" دی تا کہ فقہ کے سب سے بڑے امام کو امام مدینہ کے مد مقابل لاکھڑا کیا جائے……. امام مدینہ سازشیوں اور ان کے لہجوں سے واقف نہ تھے اِس لیے فرما اُٹھے کہ "ابو حنیفہ کا اپنا اجتہاد تھا، اپنی رائے تھی، میں اُن کے فیصلے کو غلط نہیں کہتا بلکہ اختلاف کرتا ہوں ِ، اللہ رحم فرمائے ابو حنیفہ پر کہ وہ جو کچھ محسوس کرتے تھے پوری صداقت کے ساتھ بیان کر گئے میں ابو حنیفہ سے حسن ظن رکھتا ہوں اور واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں جبری طلاق، طلاق نہیں ہے" جعفر بن سلیمان ِ خاموشی سے اٹھا اور جس مقصد کے لیے آیا تھا اُسے پورا کر کے روانہ ہوگیا…….. مقصد کیا تھا؟ ایک جبری طلاق کے سوال پر سازش کیا رچی گئی تھی؟ امام مدینہ کون تھے؟ پڑھ سکیں گے، ان شا اللہ پیر کو ان ہی صفحات پر۔