مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ ایک عظیم روحانی شخصیت، مذہبی عالم، فلسفی اور بلند پایہ شاعر تھے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے انھیں اپنے مرشد کا درجہ دیا ہے۔ حضرت شمس تبریز ؓ سے ملاقات سے قبل مولانا محض عالم دین کے طور پر جانے جاتے تھے مگر شمس سے روشنی کیا پائی کہ دل کی دنیا ہی بدل گئی اور راہ عشق کے مسافر بن کر وہ ایک ایسے صوفی شاعر بن گئے جس نے اپنی "مثنوی" سے علم کے جھرنے بہا کر قطار در قطار پیاسوں کو سیراب کر دیا۔
"ہست قرآں در زبان پہلوی" کے نام سے مشہور اسی مثنوی میں مولانا روم فرماتے ہیں۔"کسی گاؤں کی مسجد میں ایک مؤذن تھا جس کی آواز بہت بھدی تھی چنانچہ وہ نہایت کرخت اور بھونڈے انداز میں اذان دیا کرتا تھا، گاؤں کے لوگ اس کی آواز سے بہت تنگ تھے مگرکلمات اذان چونکہ مقدس اور دین کا جزو ہیں اسی بنا پر مؤذن کو کچھ کہے بغیر اذان کے احترام کا حق فرزندان اسلام کی طرح ادا کرتے البتہ مذہب سے محبت اور انداز اذان بلالیؓ سے عقیدت ان سے اندر ہی اندریہ کہتی رہتی کہ خوبصورت کلام کے ساتھ ناقابل برداشت آواز کا جڑا رہناگاؤں کے باسیوں کی کوتاہی اور ان کی غیر ذمے دارانہ روش کی عکاسی ہے، اگر وہ چاہیں تو اب بھی مؤذن بدلا جا سکتا ہے اور فلاح کی طرف پکارنے والے کے دل نشیں انداز سے کئی دل اللہ کی طرف پھر سکتے ہیں۔
گاؤں والے مؤذن کو کچھ کہنا بھی نہیں چاہتے تھے اور بدلنا بھی چاہتے تھے، لہٰذا سیانوں نے یہ فیصلہ کیاکہ مؤذن سے خلاصی حاصل کرنے کا ایک ہی مہذب طریقہ ہے کہ حضرت کو حج پر بھیج دیا جائے۔ اس زمانے میں لوگ پیدل یا گھوڑوں یا اونٹوں و خچروں پر قافلوں کے ساتھ حج کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے آنے جانے میں ایک طویل عرصہ لگ جاتا تھا۔
چنانچہ گاؤں کے لوگوں نے چندہ کر کے زاد راہ اکھٹا کیا اور مؤذن صاحب کی ہتھیلی پر ایک معقول رقم رکھتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ آپ حج کر آئیے تا کہ پورے گاؤں کے لیے دعائے خیر ہو جائے!۔ مؤذن صاحب بڑے خوش ہوئے کہ اللہ کے گھر سے بلاوا آیا ہے، پروردگار نے ان کی سن لی اور وہ اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے حرم پاک کی زیارت کر یں گے اور ویسے اس میں کسی کو شک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ بات تو ہوتی ہی بلاوے کی ہے، اب چاہے جو بھی وسیلہ بنے اور یہاں مؤذن صاحب کی آواز وسیلہ بن گئی۔
موصوف نے جلدی جلدی گھریلو معاملات نمٹائے اور حج کے لیے چل پڑے۔ اس لمبے سفر کے دوران دریاؤںاور ندیوں کو عبور کر کے کئی کئی آبادیوں سے ہوتے ہوئے وہ کسی شام ایک گاؤں جا ٹہرے اور روایت کے مطابق مسجد ہی میں قیام پذیر ہوئے۔ نماز کا وقت ہوا، لوگوں کو معلوم ہوا کہ دور دراز کے گاؤں سے مؤذن صاحب تشریف لائے ہیں تو انھوں نے درخواست کی کہ آج اذان آپ ہی دیجیے۔ مؤذن صاحب کے لیے کیا مشکل تھا، مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر اذان دے ڈالی، اسی اثنا میں امام صاحب بھی تشریف لے آئے، نمازی بھی اکھٹے ہو گئے اور حسب توفیق گاؤں کے لوگوں نے مؤذن صاحب کی کھلے دل سے مہمان نوازی کی۔
نماز کے بعد بہت سے نمازی تو رخصت ہو گئے لیکن ابھی امام مسجد اور چند ایک نمازی مسجد ہی میں موجود تھے اور مؤذن صاحب سے ان کے گاؤ ں کے حالات کے معلوم کر نے کے ساتھ ساتھ ان سے یہ التجا بھی کر رہے تھے کہ حرم کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ میں ہم خطاکاروں کو بھی یاد رکھیے گا او رسب کے لیے دعائے مغفرت فرمایے گا کہ اچانک گاؤں کا ایک رئیس مسجد میں داخل ہوا جسے دیکھ کر سب ہی حیران رہ گئے کیونکہ اس کا تعلق زرتشت مذہب سے تھا، رئیس شہر، امام مسجد کو ہکا بکا اور دیگر نمازیوں کو حالت استعجاب میں چھوڑتا ہوا آگے بڑھا اور مؤذن صاحب سے پرجوش انداز میں مصافحہ کرنے کے بعد اظہار تشکر کے طور پر ان کے گلے لگ گیا، مؤذن صاحب اور دیگر شخصیات ابھی کچھ پوچھنے کے لیے لبوں پر لفظوں کی ترتیب سجا ہی رہے تھے کہ رئیس شہر نے اپنا تھیلا کھولا اور اس میں سے انتہائی قیمتی تحائف نکال کر مہمان مؤذن کی خدمت میں پیش کر دیے۔
امام مسجد اور دیگر نمازیوں کی حیرت دو چند ہو گئی، اولاً ایک زرتشت کا مسجد میں آنا اور دوم اس قدر بیش قیمت تحائف مؤذن کی نذر کرنا، زبان سوال کے لیے تڑپی اور پوچھ پڑی کہ آپ مؤذن صاحب پر اتنے مہربان کیوں ہو گئے ہیں؟ ۔ رئیس شہر نے ایک لمبی سانس بھرنے کے بعد کچھ لمحے توقف کیا اور پھر یوں گویا ہوا کہ یقینا آپ حضرات کی تشویش اور تجسس بجا ہے، آپ کی جگہ اگر میں ہوتا تو یہی سوچتا جو آپ سوچ رہے ہیں کہ بھلا اسلام قبول کیے بنا ایک مؤذن سے بے پناہ اظہار محبت کیسا؟ بات دراصل یہ ہے کہ میری اکلوتی بیٹی اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونا چاہتی تھی، ایک عرصے سے ہمارے گھر میں اس معاملے کو لے کر طوفان برپا تھا اور لڑائی جھگڑا روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔
صرف میں ہی نہیں بلکہ پورا خاندان اس پر دباؤ ڈال رہا تھا اور مسلسل سمجھا رہا تھا کہ یہ اسلام اسلام کی کیا رَٹ لگا رکھی ہے مگر وہ بضد تھی کہ پانچوں اوقات مسجد سے بلند ہوتی اذان کی آواز اسے اپنی جانب کھینچتی ہے اور وہ یہ دین قبول کر کے رہے گی، جس مذہب میں بلانے کا انداز اتنا خوبصورت، دھیما، میٹھا اور دلکش ہو اسے کیسے قبول نہ کروں؟ ہم تو تقریباً ہار ہی چکے تھے کہ آج ان صاحب کی اذان سن کر اس نے یک دم اپنا فیصلہ بدل لیا اور واپس پلٹ آئی اس لیے ہم مؤذن صاحب کے نہایت احسان مند ہیں اور ان کے اس احسان کا قرض چکانے کے لیے یہ قیمتی تحائف لے کر حاضر ہوا ہوں "۔ مولانا رومی یہاں تک واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ "کوئی تصور، کوئی نظریہ یا کوئی عقیدہ چاہے کتنا ہی خوش کن اور اثر انگیز ہو مگر اس کی تعبیر پیش کرنے کا انداز اور ترویج و اشاعت کا طریقہ نامناسب اور بھونڈا ہو تو وہ لوگوں کے حلق سے کبھی نیچے نہیں اترتا"۔
ایک طرف تاریخ اغیارکو سمجھا رہی ہے کہ "رسول ؓ دیکھ کر امت پہچانو" اور دوسری جانب امتی ہی ایک دوسرے کو ذبح کر رہے ہیں، انتہا پسندانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے دین کو دلوں میں اتارنے کے بجائے اپنی تشریح کے خنجر دلوں میں اتارنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
آپریشن صراط مستقیم کرنے کرانے والے ہوں یا صراط مستقیم پر زبردستی چلانے والے، دونوں ہی پل صراط کے مسافر ہیں، جہاں گرتے ہوؤں کو صرف درود کے سہارے ہی بچا سکتے ہیں اور درود کیا ہے؟ پیار و محبت کا وہ شستہ اور دھیما انداز جس نے اظہار ایمان کے لیے کبھی تلواروں کا سہارا نہیں لیا، انسان کو حلال سمجھ کر برتری کا نخرہ دکھانے کے لیے نرخروں پر چھریا ں نہیں چلائیں اور مسجدوں میں ایک دوسرے پر تکفیر کی صدائیں نہیں لگائیں۔ جس طرح اذان کے خوش کن تصور کو اس مؤذن نے مجروح کیا بالکل اسی طرح اپنی عقلی تشریح کو قرآن و سنت اور خلفائے راشدین ؓ کے طریقوں پر ترجیح دینے والے دنیا کواسلام سے متنفر کر رہے ہیں۔ رحمت للعالمین کی شفاعت کے طالب گناہ گار، سیاہ کار اور خطا کار تو ہو سکتے ہیں مگر ظالم اور شقی القلب نہیں۔ مَسندوں پر بیٹھنے والے اگر مسندیں پڑھ لیتے تو جان لیتے کہ دل چیر کر دیکھنے کا اختیار دل بنانے والے کے سوا کسی کے پاس نہیں!!