کونے کھدرے سے ہمیشہ وہ کیڑے نکلتے ہیں، جن کی مختصر حیات کا اولین مرکز اپنے ان کیڑے بچوں کی شناخت ہے جو اُسی گھر کے کسی اور کونے میں مسکن بنائے بیٹھے ہوں، آپ لاکھ کیڑے مار ادویات چھڑکیں یا پھر مختلف طریقوں سے انھیں جھڑکیں یہ "متبادل انتظام " کر ہی لیتے ہیں … ایسے ہی معروف کٹ خنے اِس اُمید پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ بلڈر مافیا کو وہ سنہری زمین اونے پونے داموں بخش دیں جس کے عوض یہ معمولی بخشش کے بھی حق دار نہیں …
پاکستان کوارٹرز بھی مہاجرین پاکستان کی وہ آماج گاہ ہے، جس پر مفاد پرستوں کی ایسی رال بہہ رہی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ فیصلہ ساز غافل ہیں اور نوکر شاہی قاتل، میں آج آپ کو ان کوارٹرز کی حقیقت بتانا چاہتا ہوں جن کا مقدر لیز کے سوا کچھ نہیں۔
حکومت نے تو 1980 ہی سے مکانوں کی مینٹی ننس کرانا بند کردی تھی۔ اس وقت سے یہ تمام اخراجات مکین ہی برداشت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جب متحدہ کے وزیر صفوان اللہ نے مالکانہ حقوق کا دھوکا دیا، تو مکینوں نے ایک سے ڈیڑھ برس کے دوران مکانات کی تزئین و تعمیرِ نو پر مجموعی طور پرکروڑوں روپے خرچ کیے، جو ان کی برسوں کی جمع پونجی تھی۔ پاکستان کوارٹرز کے ایک رہائشی کلیم الحق عثمانی نے مجھے بتایا کہ " تقسیم ہند کے وقت میرے والد سرکاری افسر تھے، جوہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔
والد صاحب سمیت کئی سرکاری افسران و ملازم اپنی فیملیز سمیت بحری جہاز سے کراچی پہنچے تھے۔ یہاں پہنچ کر نمائش کے بعد خالی پڑے میدان (جہاں آج مزار قائد واقع ہے) میں سرکاری ملازمین و افسران کے لیے خیمہ بستی بسائی گئی، لیکن کچھ ہی روز بعد ہونے والی تیز بارش نے سارا نظام درہم برہم کردیا اور وہاں رہائش رکھنا ممکن نہ رہا۔ قائد اعظمؒ کے دورے کے موقع پر ان سے درخواست کی گئی کہ ہمیں نئے شیڈز بنا دیے جائیں، جہاں ہم اپنے خاندانوں کے ساتھ رہائش اختیار کر سکیں۔
یوں بانی پاکستان کے حکم پر جمشید روڈ کے اطراف شیڈز تیار کرا دیے گئے، تاکہ نو تشکیل شدہ اسلامی ملک کے سرکاری ملازمین کا رہائشی مسئلہ حل ہوسکے۔ اب ان ملازمین کے خاندانوں کو جو 70 سال سے یہاں مقیم ہیں، در بدر کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ ہم تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ ہیں، جو حکومتی فیصلے سے بے گھر ہو جائیں گے۔
کیا ملک کی خدمت کا یہی انعام ہے۔ کلیم الحق کا کہنا تھا " ہمارے بزرگوں کو ان کوارٹرز میں منتقل کیا گیا جو لارنس کوارٹرز کے نام سے جانے جاتے تھے اور پھر اب کا نام پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز ہے۔ ان کوارٹرز کے لیے بڑے بڑے شیڈز بنائے گئے تھے۔
اس کام کا آغاز 1948میں ہوا۔ مذکورہ شیڈز میں تین الگ الگ کوارٹرز ایریا بنے اور عارضی اسٹرکچرکا کام چار سال میں مکمل ہوا، جہاں دس سال کے لیے رہائش کا انتظام تھا۔ افسران و ملازمین نے یہاں رہائش اختیارکی اور سکھ کا سانس لیا۔ ان ملازمین کی ریٹائرمنٹ 1970 میں ہونا شروع ہوئی۔ ریٹائرڈ ہونے والوں کو 6 ماہ بعد عارضی مکانات خالی کرنے کا حکم پہلے ہی دیا جا چکا تھا، لیکن وہ تمام افراد کہاں جاتے، جنھوں نے لارنس کوارٹر میں سکونت اختیارکرکے کسی زمین کا کلیم تک داخل نہیں کیا تھا؟ چنانچہ ان مکینوں نے حکومت سے اپنا مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔"
اس سے آگے کی داستان غم سناتے ہوئے محمد رضوان نے بتایا کہ " میرے والد کو بھی پاکستان کوارٹرز میں رہائش کے لیے جگہ فراہم کی گئی تھی۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد جب 1970 میں مکانات خالی کرانے کی مہم شروع ہوئی تو انھوں نے رہائش کے مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ محکموں کو خطوط لکھے اور درخواست کی کہ ریٹائرڈ ملازمین کو متبادل رہائش فراہم کی جائے۔
1972 میں ذوالفقارعلی بھٹو نے حکم نامہ جاری کیا کہ ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو یہاں سے نہ نکالا جائے، جلد ہی ان کے لیے کوئی دوسرا بندوبست کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تمام مکانات کا کرایہ طے کر دیا گیا جو افسران و ملازمین کی تنخواہ کا سوا گیارہ فیصد تھا اور پنشن سے اس رقم کی کٹوتی شروع ہوگئی۔ اسی طرح جب ملازمین کی دوسری کھیپ کی ریٹائرمنٹ پر مکانات خالی کرانے کا شوشہ چھوڑا گیا تو پریشان حال مکین سپریم کورٹ پہنچ گئے، جہاں منسٹری آف ہاؤسنگ نے موقف اختیار کیا کہ تمام ریٹائرڈ ملازمین کو مکان یا فلیٹ تعمیر کرکے دیا جائے گا۔
یہ کیس 4 سال تک چلتا رہا۔ 1984میں منسٹری آف ہاؤسنگ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مذکورہ معاملے پرسپریم کورٹ کے احکامات کے حکم کے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی تجویز دی کہ جو جیسا ہے، ویسا ہی چلنے دیں۔ اس بار معاملہ ٹھنڈاہونے پر آخری تنخواہ کے سوا گیارہ فیصد کے حساب سے کرائے ادا کیے جاتے رہے۔
1992 میں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تو مکینوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق انھیں متبادل رہائش فراہم کی جائے یا جومکانات ان کے رہائش کے استعمال میں ہیں، ان کے مالکانہ حقوق دے دیے جائیں۔ معاملہ وفاقی کابینہ میں پیش ہوا۔
وہاں سے منظوری ہوئی کہ جو افسران و ملازمین یہ گھر استعمال کر رہے ہیں، انھیں مالکانہ حقوق دے دیے جائیں۔ کابینہ سے منظوری کے بعد جب یہ معاملہ اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان کے پاس پہنچا تو انھوں نے سمری پر دستخط کرنے سے انکارکردیا۔ معلوم ہوا کہ انھوں نے اعتراض کیا تھا کہ حاضر سروس سرکاری ملازمین کے لیے بنائے گئے کوارٹرز، ریٹائرڈ ملازمین کوکیسے دیے جا سکتے ہیں؟ اسٹیٹ آفس نے مکینوں سے دوبارہ سوا گیارہ فیصد کے حساب سے کرائے وصولی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت نے 1993 میں سرکاری کوارٹرزسے کرائے وصولی کا نیا قانون بنانے کا کام شروع کر دیا اور پھر نئے قانون کے مطابق کرائے وصولی کے لیے 2002 میں سیلنگ رینٹ کے حساب سے وصولی کا شیڈول ترتیب دے دیا گیا" رضوان نے بتایا کہ "اسٹیٹ آفس نے سیلنگ رینٹ سے متعلق آگاہ کیا کہ تمام مکین نئے قانون کے مطابق ادائیگیاں کریں گے۔ یہ سیلنگ رینٹ، پنشن کی کل رقم سے 30 سے 40 فیصد زائد تھا، جوکسی نے بھی ادا نہیں کیا۔ ریٹائرڈ ملازمین کے خیال میں یہ کرایہ موجودہ مارکیٹ ویلیو سے بھی زیادہ تھا۔"
متحدہ کے وزیر صفوان اللہ کی جانب سے مالکانہ حقوق سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے، کلیم الحق کا کہنا تھا کہ نواز لیگ کی حکومت ہو، پیپلز پارٹی یا مہاجر حقوق کی علمبردار متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کو سوائے دھوکے کے کچھ نہیں ملا۔ جب ہاؤسنگ کی منسٹری متحدہ کے سید صفوان اللہ کے پاس آئی تو مکینوں نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارے اس دیرینہ مسئلے کوحل کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ اسی دوران اسٹیٹ آفس، کرائے داروں سے سیلنگ رینٹ کا مطالبہ کر رہا تھا۔
سید صفوان اللہ نے اسٹیٹ آفس کو ہدایت کی کہ سلینگ رینٹ معطل کردیا گیا ہے، اب پرانے سوا گیارہ فیصد کے حساب سے ہی وصولی کی جائے۔ حکم آنے کے بعد مکینوں کی ہمت بڑھی اور مطالبہ کیا گیا کہ حکومت نے 1980 کے بعد کوارٹرز کی مینٹی ننس بند کر دی تھی، جس کے بعد مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت رہائشی کوارٹرز پر اخراجات کیے، لہٰذاانھیں مالکانہ حقوق دیے جائیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں متحدہ کے وزیر صفوان اللہ نے 2006 میں اس بنیاد پر مالکانہ حقوق دینے کا اعلان کیا کہ مکین کافی عرصے سے رہ رہے ہیں۔
صفوان اللہ نے اسٹیٹ آفس سے تمام مکینوں کو ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کرایا۔ جس کے دائیں طرف مکین کی تصویر اور بائیں طرف وزارت ہاؤسنگ کا لوگو ہے۔ اوپری حصے میں درمیانی طرف گورنمنٹ آف پاکستان منسٹری آف ہاؤسنگ اینڈ ورکس اسٹیٹ آفس کراچی درج ہے۔
ذیل میں مکین کا نام، اس کی ولدیت، کوارٹرنمبر، کوارٹرکا اسکوائر فٹ ایریا اور جہانگیر روڈ اسٹیٹ کراچی تحریر ہے۔ اس پر اسٹیٹ افسر اور متعلقہ حکام کے دستخط اور مہریں بھی ثبت ہیں۔ مکانات کے مالک بننے کے بعدلوگوں نے تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا اور ایک ڈیڑھ سال کے دوران کروڑوں روپے کے اخراجات کر ڈالے۔ اس دوران کرائے کی مد میں پنشن سے کٹنے والی رقم بھی نہیں کاٹی جا رہی تھی۔ لہٰذا تمام افراد خود کو کوارٹر کا مالک سمجھنے لگے۔
2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے ہی گارڈن آفیسرز کالونی کے مکین، سیلنگ رینٹ وصولی پر وزارت ہاؤسنگ اور اسٹیٹ آفس کو فریق بناتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ اپنی درخواست میں انھوں نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز کے مکینوں کی طرح ان سے بھی پنشن کی طرز پر وصولی کی جائے اور سیلنگ رینٹ وصول کرنا بندکیا جائے۔ سندھ ہائیکورٹ میں یہ کیس چلا تو صفوان اللہ کے مالکانہ حقوق کے سرٹیفکیٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ کیونکہ اس اراضی کی ملکیت کی تبدیلی کے لیے نہ تو قومی اسمبلی سے اور نہ ہی کابینہ سے منظوری لی گئی تھی۔ چنانچہ عدالت عالیہ سندھ نے پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرزکے مکینوں کو سیلنگ رینٹ ادا کرنے کے احکامات دیے۔
اب میرا کہنا یہ ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کی روح کے مطابق قومی اسمبلی سے منظوری کے بنا کسی بھی قسم کا فیصلہ یا بلڈرزمافیا کوچپ چاپ کوارٹرز میں جگہ الاٹ کرا کے مکانات گرانے کی کوشش اس حلقے کے ایم این اے عامر لیاقت حسین کی موت کے بعد تو ہوسکتی ہے زندگی میں نہیں … میری امی جان مرحومہ محمودہ سلطانہ نے مجلس شوری سے خدا داد کالونی کی لیزکرائی اور میں انھی کا فرزند ہوں یا توگھر بچاؤں گا یا اپنے گھر واپس چلا جاؤں گا، دوسرا کوئی اور راستہ نہیں!