Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Akbar Aur Sir Syed

Akbar Aur Sir Syed

دوستو! اگر یہ کہا جائے کہ سترہ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو عرب النسل ہندوستانی سید محمد متقی کے ہاں پیدا ہونے والے سید احمد خاں برِ صغیر میں مسلمانوں کی تعلیم، تعظیم، تکریم، تحریم کے سب سے بڑے مویّد، محرک اور نہایت متحرک مجاہد تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ آج سے ٹھیک دو سو چار سال قبل متحدہ ہندوستان کے تاریخی و تہذیبی شہر دہلی میں پیدا ہوئے اور ہوش سنبھالنے سے آنکھیں بند ہو جانے تک اُردو صحافت، اُردو ادب، مسلمانوں کی تاریخ، تعلیم، اسلامی تہذیب اور ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں کے سب سے بڑے وکیل اور محافظ کے طور پر زندہ رہے۔

کسی دانش مند نے کیا خوب کہا کہ سرسید کو ایسی قوم کی تعلیم و تربیت کرنی پڑی جو نہ صرف اپنی حالت کو سُدھارنے اور ترقی کی طرف قدم بڑھانے پر کسی صورت آمادہ ہی نہ تھی بلکہ خود سرسید کے بھی خلاف تھی۔

سرسید احمد خاں جہاں اُردو ادب میں مضمون، انشائیے، تنقید، جدید شاعری، ناول، سوانح نویسی، سیرت نگاری، جدید نظامِ تعلیم اور ادبی صحافت کے محرک ہیں، وہاں برِ صغیر میں دو قومی نظریے کے خالق بھی ہیں۔ اُن کی حیثیت تو برِ عظیم کی تاریک سیاسی اور ویران سماجی رات میں ایسے منارۂ نور کی ہے، جس کی روشنی میں آج بھی ہماری دانش، تعلیم، سیاست، صحافت اور ادب بہتر سے بہتر راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ جب لوگوں نے سرسید کے اَکھڑ اسلوب اور اُکھڑے الفاظ پہ اعتراض کیا تو ان کے سب سے موافق اور مخلص ساتھی مولانا الطاف حسین حالی نے کہا:"سرسید کی حالت تو اس شخص کی سی تھی، جس کے گھر میں آگ لگی ہے اور وہ ہمسایوں کو بے تابانہ پکارتا ہے۔"

اسی طرح اکبر الہٰ آبادی بھی نہ صرف عملی اور ذاتی زندگی میں ایک وکیل اور ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے نفسیات داں تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک قادرالکلام شاعر اور باکمال طنّاز بھی تھے لیکن ان کی طنز بالعموم زہر میں بجھی اور قہر میں تُلی نہیں بلکہ شوخی اور شرارت سے چھلک رہی ہوتی تھی۔ اَودھ پنچ، کے صفحات میں اکبر کے لطیف و ظریف اسلوب کا جادو ایسا سر چڑھ کے بولتا تھا۔

عوام و خواص میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ علّامہ اقبال جیسے نابغۂ روزگار بھی ان کے معترف و مقلد رہے۔ انگریزی تہذیب پر کیے گئے ان کے تیکھے، شریر اور چلبلے شاعرانہ وار ہندوستان کے لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکنوں کی طرح ہلچل مچاتے تھے۔

سرسید اور اکبر الٰہ آبادی اصل میں دو شخصیات کے نہیں، دو تہذیبوں، دو رُجحانات، دو رویوں، دو انتہاؤں، دو مصمم ارادوں، اور ایک ہی مرض کی دو مختلف المزاج، مختلف التاثیر دواؤںلیکن مشترک التعبیر خوابوں کا نام ہے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر ان دونوں عظیم شخصیات کی مضبوط و متصادم صداؤں سے ایک ہی وقت میں گونجتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ ٹاکرا صرف دو لوگوں، دو سماجوں، رواجوں، مزاجوں ہی کا نہ تھا، ترجیحات و تفہیمات کا بھی تھا۔ یہ مناقشہ تہذیب الاخلاق، اور اودھ پنچ، ہی کا نہیں تبدیلی اور جمود کا بھی تھا۔ یہ مکالمہ اصل میں تعجیل اور تعمیل کا تھا۔ یہ ملاکھڑا حال کی داد اور مستقبل کی فریاد کے درمیان بھی تھا۔ یہ زمانہ قدیم کا وہ تہذیبی ٹاک شو تھا، جس کی قدم قدم، قلم قلم، لمحہ لمحہ اور لحظہ لحظہ ریٹنگ ہوتی تھی۔

ایک کے پلڑے میں محض نیک نیتی اور بھلا مانس حالی و نذیر احمد تھے۔ دوسرے کے فتراک میں مچھو بیگ ستم ظریف، جوالا پرشاد برق، تربھون ناتھ ہجر جیسے تماشا ساز? پنڈت برج نرائن چکبست کے بقول جن کے قلم سے پھبتیاں ایسے نکلتی تھیں جسے کمان سے تیر? ایک کے ہاتھ میں جھکی ہوئی کمر اور نیم شکستہ کمان تھی، دوسرے کے پاس بے نیام برچھیاں ?

ایک کا مقصد پڑھے لکھوں کو سمجھانا تھا، دوسرے کی آشا قدامت پہ مُصر جذباتی قوم کی اشک شوئی? رفتہ رفتہ سرسید کی مستقل مزاجی اور مستقبل بینی رنگ لائی اور اکبر دل جان سے سید کی صلاحیت و صالحیت کے قائل ہوتے چلے گئے۔ اسی اتفاق و اعتراف کے سلسلے میں اکبر کی تقلیدِ سرسید کی حامل نظم "مکالمہ اکبر الہ آبادی و سرسید" ملاحظہ کی جا سکتی ہے:

کہا کسی نے یہ سیّد سے آپ اے حضرت!

نہ پیر کو، نہ کسی پیشوا کو مانتے ہیں

نہ آپ عالمِ برزخ سے مانگتے ہیں مدد

نہ فاتحہ کے طریقِ ادا کو مانتے ہیں

نظر تو کیجیے اس بات پر جو ہیں ہندو

بہ صد خلوص ہر اک دیوتا کو مانتے ہیں

بہت وہ ہیں جو عناصر پرست ہیں دل سے

وہ آگ پُوجتے ہیں یا ہوا کو مانتے ہیں

کرسچئن بھی فدائی نامِ مریم کے

بہ دل مسیح علیہ الثنا کو مانتے ہیں

خود آپ ہی میں جو ہیں شیعانِ باتمکین

وہ اہلِ بیعت کو آلِ عبا کو مانتے ہیں

وہ لوگ جو ہیں ملقب بہ صوفیانِ اکرام

فدا قبور پہ ہیں اولیا کو مانتے ہیں

مرادیں مانگتے ہیں لوگ پاک روحوں سے

کسی بزرگ کو یا مقتدا کو مانتے ہیں

پھر آپ میں یہ ہوا کیا سما گئی ہے کہ آپ

نہ دستگیر کو نہ مشکل کُشا کو مانتے ہیں

جواب انھوں نے دیا ہم ہیں پیروِ قرآں

ادب ہر ایک کا ہے لیکن خدا کو مانتے ہیں

سند ہماری ہے اِیَّاکَ نَستَعِین اے دوست

اسی یگانۂ حاجت روا کو مانتے ہیں

اسی کا نام زباں پر ہے حَیّ اور قیوم

اسی کی قدرتِ بے انتہا کو مانتے ہیں

یہ بُوئے شِرک ہی ہے جنگ و اختلاف کی جڑ

تو عقل مند کب ایسی بلا کو مانتے ہیں

جواب حضرتِ سید کا خوب ہے اکبرؔ

ہم ان کے قولِ درست و بجا کو مانتے ہیں

تمام عمر سرسید کی مخالفت کرنے اور ان کے ہر کام، ہر پالیسی پر طنز کے تُند و تیز تیر چلاکے ہندوستان بھر سے داد سمیٹنے والے اکبر نے بالآخر نہ صرف اپنے بچوں کو سرسید کی منشا کے عین مطابق انگریزی تعلیم دلوائی بلکہ سرسید کی وفات کے بعد واشگاف الفاظ میں ان کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا، جس کا صرف ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتا تھا

نہ بھولو فرق جو ہے، کہنے والے، کرنے والے میں