Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Fix Million Dollar Man

Fix Million Dollar Man

کبھی حافظے کی سکرین پہ بچپن کے واقعات کی فلم چلنے لگے تو راجر مور کی مہماتی ڈراما سیریز" سِکس ملین ڈالر مَین" بھی ذہن کے کواڑوں پہ دستک دیتے ہوئے گزرتی ہے، جس کا ہیرو جناتی اعصاب و قویٰ کا مالک دکھایا گیا تھا۔ وہ اپنے مقابل آنے والی ہر قوت کو روندتا چلا جاتا۔ بڑے سے بڑے ٹرالر کو الُٹ دینا، کھمبوں کو زمین سے اکھاڑ دینا، دریا کو ایک ہی جست میں پھلانگ جانا، بڑے سے بڑے پھنے خاؤں کو پلک جھپکتے میں پچھاڑ دینا، اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ راہ میں حائل ہونے والی دیوار یا رکاوٹ کے اُڑتے پرخچے ہم تالیاں بجا بجا کے دیکھا کرتے تھے۔

قوت اور دہشت سے مرعوب ہو جانا ازل سے انسانی فطرت میں شامل ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے، جس گوشے سے بھی طاقت اور وحشت کا ظہور ہوا، وہاں جھکے سروں، ڈھلکی گردنوں اور خاک آلود پیشانیوں کا ڈھیر لگ گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں کسی زعیم نے طاقت اور دولت کے ساتھ تھوڑا بہت ڈرامے کا آرٹ بھی سیکھ لیا، وہ جمہور کی ننگی پیٹھ پہ نسل در نسل مسلط ہوتا چلا گیا۔ اس وقت ہم فرعون، نمرود، شداد کی بے وقت کی راگنی نہیں چھیڑیں گے بلکہ اپنے ملکی حالات سے ابھرنے والی رعونت و خشونت کی بات کریں گے۔ ایوب خاں، ضیا الحق، یحییٰ اور مشرف نے یہ رعب اپنے چمکتے کالے بوٹوں سے کشید کیا۔ بھٹو نے اس دبدبے کو مائیک توڑ عوامی خطابات اور روٹی، کپڑے، مکان کے مصنوعی سانسوں پہ زندہ رکھا۔ بے نظیر کو والد کی پھانسی اور پہلی خاتون حکمران، کی بیساکھیاں لیے لیے پھرتی رہیں۔

اس کے بعد مختلف پارٹیوں کے دو ایسے " سُرجن تارے"اس قوم پر بار بار مسلط ہوتے رہے کہ جن کے پاس اخلاقیات و قابلیت تو رہی ایک طرف، بُوٹوں، نعروں اور جوشِ خطابت کی صلاحیت کا بھی فقدان تھا۔ انھوں نے اس شدید کمی کو قومی خزانے کے کیپسولوں سے پورا کیا اور پاکستانی سیاست میں صحیح معنوں میں فِکس ملین ڈالر مَین، کا ناقابلِ فرموش کردار ادا کرتے چلے گئے۔ وہ ایسے تاجر اور آجر تھے کہ آپس میں شدید اختلاف کے باوجود قانون کے بجائے قارون کے طریقۂ کار پہ عین متفق تھے۔ انھوں نے نہ صرف وزیر، ضمیر حتیٰ کہ تقدیر اور تدبیر کے بھی مناسب ترین نرخ مقرر کر دیے بلکہ صحافت کے ساتھ ساتھ امانت و دیانت سے منسلک محکموں کے اوپر بھی جوتاکمپنی کے ٹیگ لگا دیے۔ پھر زمانے کی آنکھ نے بڑے بڑے کلغیوں والوں کو ان شاطروں کے سامنے دُم ہلاتے اور کسی بھی طرح کے حکم کے سامنے دَم نہ مارنے کے وعدوں کے ساتھ من کی مرادیں پاتے دیکھا۔

اس سے اگلی نسلوں کے پاس تو لُوٹ مار کی اندھی کمائی کے ساتھ پدرم سلطان بُود، کا دُم چھلا بھی موجود تھا۔ آج جب مَیں ان سوداگر سیاست دانوں کی پاڈی، غصیلی، خود سر اولادوں، کہ کسی بھی طرح کا بیان دیتے ہوئے جن کے اوپر تکبر و تشنج کی کیفیت طاری ہوتی ہے، تیوریاں اور آستینیں چڑھا کے، منھ سے جھاگ اور نتھنوں سے آگ نکالتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے گاؤں میں بجلی کی نئی نئی آمد کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب ہمارے گاؤں کے میراثیوں کا سات آٹھ سالہ لڑکا جو شام ہوتے ہی چھوٹے چھوٹے بچوں کو اکٹھا کر کے گاؤں کے ایک چوک میں لے جاتا، جہاں عوامی سہولت کے لیے سو کینڈل پاور کا ایک بلب لگایا گیا تھا۔ وہ بچوں کو مخاطب کر کے جوشِ خطابت کے ساتھ ایک دم بٹن دبا کے بلب روشن کرتے ہوئے نہایت فلمی انداز میں کہتا:

" اِک بٹن دبّاں تے سارا پنڈ ساڑ دیاں ?"

اسی خاندانِ دولتیہ کی سب سے تازہ اور مکروہ مثال" ایوانِ بالا خانہ" کے الیکشن ہیں، جس پر سب سے عمدہ تبصرہ ڈاکٹر معین نظامی کی یہ پیروڈی ہے:

شاید اسی کا نام مروت ہے شیفتہ

اک مُہر سی ہے خانے کے اندر لگی ہوئی

اس معرکے میں جب اسی طبقے کا ایجاد کردہ تھپڑ ان کے اپنے منھ پر آن لگا تو چاروں جانب سے سنائی دینے والی غراہٹ نے ایک دم چیخوں، آہوں اور سسکیوں کا لبادہ اوڑھ لیا۔ بقولِ شاعر:

جب منھ تک ان کا مُکۂ فولاد آ گیا

بچپن میں جو پڑھا تھا سبق یاد آ گیا

اپوزیشن کے اخلاقی، بیان سن کے لوگوں نے پوچھا: "تین مارچ کو اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے والوں کو بارہ مارچ کو اخلاقیات یاد آ گئی۔" پھر آپ تو جانتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر سوشل میڈیا کی لُتری کون پکڑ سکتا ہے؟ ایک صاحب نے لکھا کہ جیت کے لیے جو طریقہ بیٹے نے ایجاد کیا، اُس پہ سب نے فخر کیا، بغلیں بجائیں، مٹھائیاں بانٹی گئیں لیکن جب وہی گُر اپنے ابّے پہ استعمال ہوا تو ہر طرف پٹس پڑ گئی!! کسی نے اسے ہار چور کی ہار، کہا لیکن یہ ضرب المثل تو بہت لاجواب تھی کہ:گھر کا بھیدی ابا ڈھائے? پھر ایک دوست کی یہ انوکھی تلفیظ بھی ملاحظہ ہو:

"نی" نے "نی" کو اور" دی" نے "ری" کو ہرا دیا۔

جب پولنگ بُوتھ میں کیمروں کی بات چلی توایک دوست نے یہ مزے دار پہلو بھی تراشا کہ سینٹ میں لگے کیمروں کو وہ برا کہہ رہے ہیں، جن کی اپنی لیڈر کے پاس ججوں کے خلوت خانوں کی ایسی ششکے دار وڈیوز موجود ہیں، جن کو کرائے پر چڑھانے سے ملک کا آدھا قرضہ اُتر سکتا ہے۔ اس الیکشن میں ایسے ایسے لطیفے بنے کہ اگر شیخ چِلی اور مُلا نصرالدین زندہ ہوتے تو اپنے دھندے سے استعفے دے کے چلتے بنتے۔ مثال کے طور پر جو سیاسی اداکار دوپہر کو ایک چینل پہ بیٹھ کے فرما رہے تھے کہ گیلانی کی جیت میں پی ٹی آئی کے جن لوگوں کے ووٹ مسترد ہوئے، وہ پی ٹی آئی ارکان نے ضمیر کی آواز پر جان بوجھ کر ضائع کیے ہوں گے، شام کو اپنی ہی پارٹی کے ووٹ مسترد ہونے پر ان کا بیانیہ ہی نہیں اوقات بھی گرگٹ کی کلاس فیلو بن گئی۔ ایک ظریف نے توان سب نہلوں پہ تُرپ کا یہ دہلا پھینک کر بات ہی ختم کر دی کہ:

"اپوزیشن کو ایک بار پھر جمعہ مبارک!!!"