کورونا زدہ زندگی کا اژدہا اب ایک سال کی گہما گہمی ڈکارنے کو ہے۔ اس اوکھے اور انوکھے عرصے میں جو نقصان ہوئے، ان میں بعض کی تو تلافی بھی ممکن نہیں لیکن اپنی ذات کی حد تک بتاتا ہوں کہ زندگی کے کئی پسندیدہ مشاغل میں باقاعدگی آ گئی۔ مطالعہ، قیلولہ، ٹیبل ٹینس، کالم نگاری اور ارطغرل غازی? نماز الحمدللہ پہلے سے ہی ذات، اوقات اوراہم ترین مصروفیات کا حصہ ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اس وقت زندگی میں آسودگی یا فراخی کا جو احساس ہے، اس میں کافی حد تک آخری مصروفیت کی باقاعدگی کی برکت کودخل ہے۔ مطالعے کے ضمن میں عرض ہے کہ اس دورانیے میں ان بہت سی کتابوں کا قلعہ بھی فتح ہو گیا جو طویل عرصے سے میرے سرہانے والے ریک میں پڑی اپنے بال سفید ہو جانے کا احساس دلاتی رہتی تھیں۔ جہاں تک قیلولے کی بات ہے اس کی آڑ میں ان نیندوں کا قرض بھی چُکا دیا جو واجب بھی نہیں تھیں۔
ٹیبل ٹینس کا چسکا یونیورسٹی زمانے میں اورینٹل کالج کے شیرانی ہال میں اپنی دو کلاس فیلوز زاہدہ منظور المعروف ٹُنیا اور نسرین ظفر کی دیکھا دیکھی لگا تھا۔ شیخوپورہ کامرس کالج کا پرنسپل ہاؤس(جہاں ابتدائی عملی زندگی کے اہم ترین چودہ سال بِتائے، پی ایچ۔ ڈی?شادی? پہلی چار کتابیں ? چاروں بچے? کالم نگاری، وہیں مکمل ہوئی، انجام پائی، شایع ہوئیں، پیدا ہوئے، آغاز کیا) کا وسیع و عریض ڈرائنگ روم، جمبو سائز ٹیبل اور ہر سہ پہر ننھی مُنی بال کی ٹُک ٹُک سے اس لیے بھی مزین رہا کہ اس جہاز نما بیٹھک کے شایانِ شان سامان ہی نہیں تھا، وہی غالب کے گھر میں تھا کیا کہ تیرا غم اسے غارت کرتا، والی بے سرو سامانی تھی۔ اس لیے کھیل کی اس میز نے صحت کے ساتھ ساتھ بے سرو سامانی کا بھی بھرم قائم رکھا ہوا تھا۔ اب جب آن لائن منگوائے گئے فولڈنگ ٹیبل پہ باپ بیٹے کے درمیان مغرب اور عشا کے درمیان گھمسان کا رَن پڑتا ہے تو پچیس اور پچپن کی اس روزانہ کی جنگ میں دو تین یا تین دو گیمز کے مارجن سے ایک سال سے مسلسل ہارنے جیتنے کو محض سفید بالوں کا لحاظ نہیں سمجھنا چاہیے۔
جہاں تک کالم نگاری کا تعلق ہے، یہ سفر بھی 1997ء میں میاں نواز شریف کی بھاری مینڈیٹ والی حکومت کے حلف اٹھانے والے دن سے شروع ہو کے وقفے وقفے سے ہی سہی، چوبیسویں برس کے شباب آور دورانیے میں قدم رکھ چکا ہے۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے، جب مَیں دل میں کالم نگاری کی نیت باندھ کے ماڈل ٹاؤن موڑ پہ واقع روزنامہ کے ایڈیٹوریل انچارج جناب توصیف احمد خاں سے ملنے کشاں کشاں چلا گیا تھا۔ کسی دوست نے ان کی سخت مزاجی کی مخبری پہلے سے کر رکھی تھی، اوپر سے جب مَیں نے کاؤنٹر پہ بیٹھی شوخ ریسپشنسٹ کو اپنے مطلوبہ میزبان کا نام بتایا تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ کے حروف میں جس کو ہو دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟ ، صاف پڑھا جا سکتا تھا۔ نتائج بھی حسبِ توقع تھے۔ خاں صاحب نے میز پہ پڑی ایکسٹنشن پہ ایک پھیکی، ایک میٹھی چائے کا حکم نامہ جاری فرمانے کے بعد، بغیر کسی تمہید، تاخیر اور تفصیل کے پہلے کہیں لکھاہے؟ ، کا ٹریگر دبا دیا، بندہ بھی اپنی تازہ تولید قلمی دشمنی، کی جو کاپی چھپائے نہ بنے، والے انداز میں بغل میں دابے ہوئے تھا، جھٹ ان کے سامنے رکھ دی۔ ایک نظر ٹائٹل پہ ڈالی، دوسری بیک ٹائٹل پہ، یوسفی کا فلیپ دیکھ کے آنکھوں میں چمک تو نہیں آئی البتہ لہجے میں للک ضرور دکھائی دی۔ کتاب واپس راقم کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا:
" کل سے کالم بھیجو لیکن اتنا یاد رکھنا کہ کالم اپنے معیار پہ چھپے گا، یوسفی کے فلیپ کی وجہ سے نہیں!!"
مزے کی بات دیکھیے کہ بانوے (1992) میں قلمی دشمنی، چھپی تھی، اب بانوے (نیوز) ہی میں قلمی دشمنی، چھپ رہا ہے۔ اب تو اس برخوردار نے بھی دوسرے سال میں قدم رکھ دیا ہے، جب میرا پبلشر دسمبر2019ء سے دسمبر 2020ء تک کے 116کالموں کو صحافت، ظرافت، کے عنوان سے شایع کرنے پر آمادہ ہے تو مجھے گلزار کی اس نظم کے مصرعے کیوں نہ یاد آئیں:
ایک سو سولہ چاند کی راتیں
اور تمھارے کاندھے کا تِل
خط میں لپٹی رات پڑی ہے
وہ بھجوا دو!!
اور اب آتے ہیں ترکی کی عالمی شہرت یافتہ ڈراما سیریل ارطغرل غازی، کی طرف? یہ بھی ہمارا کرونا کے دنوں کا پالا ہوا عشق ہے۔ اسے شروع تو ایسے ہی لوگوں کے کہنے سننے سے کر دیا تھا لیکن یہ ختم دیکھنے، دیکھنے اور دیکھنے ہی سے ہوا ہے۔ کرتے بھی کیا ڈراما ہی اپنا آپ دِکھانے پہ تُلا ہوا تھا۔ ہم ڈراموں، فلموں کے عادی تو خیر زمانۂ طالب علمی ہی سے رہے ہیں۔ آرٹ یا شارٹ فلم کسی نہ کسی کے بھراوے میں آ کے دیکھ ہی لیتے ہیں۔ کوئی ایسا سخت دائرہ بھی نہیں، نصیر الدین شاہ کی اجازت، مادھوری کے دل، امیتابھ کی چینی کم، سے سردار برادران کی کیری آن جٹا، تک سب چلتا ہے لیکن سچ کہتا ہوں اس پورے سال کے دوران کوئی فلم، کوئی ڈراما نہیں دیکھا? دیکھا کیا، دیکھا ہی نہیں گیا? دیکھنے کی طلب ہی پیدا نہیں ہوئی? اس نے دیکھنے ہی نہیں دیا? یہ تو ہماری روزمرہ کی ایسی مصروفیت بنا کہ ہر قسط کا اختتام، اگلی قسط کے آغاز کا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے انتظار کر رہا ہوتا۔ ہوتے ہوتے تو اس ڈرامے کے ساتھ دوستی، تعلق داری اور دلداری کے سارے رشتے بنتے چلے گئے۔
آج جب پانچویں سیزن کی اٹھاونویں قسط کے ساتھ آخری لکھا دیکھا تو دھچکا سا لگا۔ کہنے کو تو فروری 2020ء سے ہماری بصری دنیا میں قدم رکھنے والا ایک غیر ملکی ڈراما انجام کو پہنچا? یعنی ارطغرل کی ہرنی کی آنکھوں والی سلجوق شہزادی حلیمہ سلطان کی محبت سے شروع ہونے والی حق و باطل کی طویل جدوجہد عمرولو قبیلے کی مورنی کی چال والی البلگائے خاتون سے شادی پر منتج ہوئی لیکن جاتے جاتے تاریخ اور فکشن کی کوکھ سے پھوٹا یہ سیریل ادب اور آداب، لالچ اور ایثار، آدمی اور انسان کے حوالے سے بہت کچھ دے گیا۔ جس کی تفصیل پھر کبھی!!!