یونیورسٹی کے زمانے میں ایک انگریزی فلم دی ماسک، دیکھ کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ بات صرف اتنی تھی کہ ایک شخص کی حماقت یا کسی ناپسندیدہ حرکت کی سزا کے طور پر ایک سیاہ رنگ کا ماسک اس کے چہرے پہ مسلط ہو گیا تھا۔ وہ اسے ہٹانے یا اتارنے کے لاکھ جتن کرتا لیکن ماسک سے چھٹکارہ نہیں پاتا? فلم کے اس کردار کی بے بسی و بے چَینی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اس کی اضطراری حالت پہ سینما ہال میں بیٹھے لوگوں کی عجیب کیفیت تھی۔ کہیں سسکیاں سنائی دے رہی تھیں اور بعض جانب سے قہقہے۔ ایسے قہقہے جن میں تمسخر، تضحیک، ترس اور تفریح رَل مل گئے تھے? صرف تین دہائیاں بعد وہی عذاب، سرزنش، سزا یا جبر ہم سب پہ سچ مچ مسلط ہو گیا ہے، جس کی دہشت سے بعض ممالک میں تو اب ندامت، بے کسی اور خوف کے ہاتھوں بقول سلیم شاہد یہ حال ہے:
باہر جو مَیں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں مَیں گھر میں در و دیوار پہن کر
لیکن ہماری بے حِسّی کا اب تک یہ عالم ہے کہ ہم نے اس مہلت نما وارننگ پہ اتنا بھی تأمل نہیں کیا، جتنا کسی زمانے میں ایک فلمی کردار کی بے بسی پر کیا تھا۔ ہم نے تو یہ تک بھی غور نہیں کیا کہ اس کردار کی طرح ہم سے کیا حرکت، حماقت یا خطا سر زد ہو گئی ہے کہ وہی ماسک اب ہم سب اہلِ دنیا کا لازمی یاجبری ٹاسک قرار پا چکا ہے۔ ہمیں تو اب بیماری کے خوف سے نہ سہی، اپنی سیہ بختی کی بنا پر ہی منھ چھپا لینا چاہیے، قبل اس کے کہ منھ ڈھانپ دینے کا کوئی ایسا بندوبست ہو جائے، جس کا میرزا غالب نے اپنے اس شعر میں ذکر کیا تھا:
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
مَیں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
ویسے تو پاکستانی سیاست دان، علم فروش استاد، فرقہ باز مولوی، نام نہاد پیر، دھوکا باز فقیر، عیار درویش، سُودخور طبقہ، ملاوٹ کرنے والے دکان دار، جھوٹ بیچنے والے صحافی، قلم گروی رکھنے والے نام نہاد ادیب، ذخیرہ اندوز تاجر کہ جن کی بابت لوگ کہتے ہیں کہ یہ کم بخت اگر سن لیں کہ چند روز بعد قیامت آ رہی ہے تو اگلے دن سے کفن، جائے نمازیں، مصلے مہنگے کر دیں گے، بھی ہمارے اوپر عذاب ہی کی صورت مسلط ہیں۔ اس وقت ہمارا دیرینہ دوست مرزا مُفتہ ماسک کے قانون پر سب سے زیادہ غصے میں ہے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: یار تم خود سمجھ دار ہو، اس طرح تو ہم مردوں کی مونچھ مروڑ کے چلنے کی شان و شوکت ہی ختم ہو جائے گی۔ ہماری فلمی ہیروئن کس منھ سے دعویٰ کرے گی کہ: میرا لونگ گواچا، مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کرونا ان سب کرداروں سے پھر بھی اچھا ہے کہ اس نے کم از کم ہمیں جھنجھوڑا تو ہے۔ زندگی کے بارے میں نیا لائحۂ عمل ترتیب دینے پر اکسایا تو ہے۔ کولھو کے بَیل والی روٹین چھوڑ کر کچھ نیا کرنے کی دعوت تو دی ہے!!!
اس وقت کرنے کی بات یہ ہے کہ ماسک اس وقت لباس نہیں جسم کا حصہ قرار پا چکا ہے۔ ہماری قوم کے علاوہ پوری دنیا نے اس کو اخلاقیات کا جزو سمجھ کے قبول کر لیا ہے۔ کچھ عرصے بعد خبریں آئیں گی کہ دنیا کی بڑی جامعات میں ماسکیالوجی، کے شعبے قائم ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اس وبا کے ساتھ خوش دلی کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے، بقولِ شاعر:
وبائے عام سے مرنے کا خوف اپنی جگہ
کواڑ کھول کے دیکھو بہار آئی ہے
ادھر ہمارے ڈاکٹر سمجھا سمجھا کے پھاوے ہو چکے ہیں۔ لالہ بسمل کا یہ کہہ کہہ کے گلا خشک ہو چکا ہے کہ:
اس وبائے عام کا ہے ایک حل
احتیاط و احتیاط و احتیاط
لیکن جناب کہاں؟ ہمارے کان پہ جوں اور ناک پہ توں تک نہیں رینگ رہی۔ ماسک جرمانے کے خوف سے گلے پر باندھ لیا، کسی کی نسلوں پہ بہت احسان کیا تو ٹھوڑی تک چڑھا لیا۔ مسجد میں جنازے کا اعلان ہوا تو کہہ دیا: بس وقت آ گیا تھا?، بالآخر ہوگا یہ کہ جب دنیا اس بحث کو چھوڑ چھاڑ کے کسی اور اہم مس، لے سے نمٹ رہی ہوگی، اس وقت دیگر بہت سے معاملات کی طرح ہمارے ہاں اس کا فیشن چل نکلے گا۔ محفل میں بیٹھی کوئی عورت ہاتھ نچا نچا کے کہے گی: بیٹی کو جہیز میں جے جے برانڈ کے پچاس ماسک دیے ہیں، ہر سوٹ کے ساتھ اسی ڈیزائن کا ماسک پہنے گی ہماری بیٹی? شادیوں بیاہوں پہ جوتا چھپائی کی جگہ ماسک پہنائی کی رسم چل نکلے گی۔
کل کلاں کوکوئی نیم برہنہ حسینہ ٹی وی پہ کیٹ واک کرتی ہوئی آئے گی اور فل سکرین پہ قبضہ کر کے دل فریب مسکراہٹ کے ساتھ ناظرین کی آنکھوں میں شریر آنکھیں ڈال کے کہے گی: ماسک لیا تو بات بنی، ? اس کے مقابلے میں اگلے دن چند مغرب پرست ادھیڑ عمرخواتین سڑک پہ آ جائیں گی اور چند ویہلے اور تماشبین صحافیوں کے سامنے طرح طرح کے بینر لکھ کے پُتلی تماشا کریں گی اور بیٹھے گلے کے ساتھ اُٹھ اُٹھ کے نعرے لگائیں گی: میرا ماسک میری مرضی!!!
اسی طرح ہوتے ہوتے کسی جامعہ میں کوئی مشکل یا اُشکل پسند استاد ماسک کی ساختیاتی ہیئت، پہ ایم فل لیول کا دھواں دار تھیسز لکھوا دے گا۔ بہت ہوا توہمارا کوئی ترقی پسند دوست اپنے جملہ فلاسفہ کو بروئے کار لا کر موسیٰ سے ماسک تک، جیسی مبتلائے وہم اور ناقابلِ فہم کتاب لکھ مارے گا۔ ادبی حلقوں میں ماقبل ماسک، اور ما بعد ماسک، کے ادبی رجحانات پہ گرما گرم بحث ہوگی۔ کسی مذہبی جماعت کا کوئی مفید شاعر بچوں کے سلیبس کے لیے ماسک اور مسواک، قسم کی نظم لکھ دے گا، جو آنے والی نسلوں کو ماسک سے زیادہ چمٹ جائے گی۔ ہم نے گزشتہ دنوں اپنے نہایت ترقی پسند بزرگ حکیم جی سے پوچھا کہ اس ماسک کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا ہے؟
فرمانے لگے: روس کو!
وہ کیسے؟
وہ ایسے کہ اسے پہن کے تو اچھی خاصی امریکن لڑکی بھی مجسم ماسکو، لگنے لگتی ہے!!!!