Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mere Hisse Ka Mumtaz Mufti (1)

Mere Hisse Ka Mumtaz Mufti (1)

اُردو ادب سے میری محبت کا سلسلہ بہت دیرینہ اور پیچیدہ ہے۔ اس مرض کے صحیح آغاز کا پتا تو نہیں چلایا جا سکا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب وجدان نے آنکھیں اور شعور نے کھاتا کھولا تو الفاظ کے دروبست کے لیے میرے اندر خوش گوار دھڑکنیں موجود تھیں۔ ابتدائی جماعتوں ہی سے اُردو کہانیاں اور نصابی شاعری دریچۂ دل پہ دستک دینے لگی تھیں۔ اس سے باقاعدہ دوستی کا آغاز مطالعے کی میز پر ہوا۔ مطالعے کی رفتار اور شدت طوفانی تھی، جس میں اخبار، رسائل، کتب، ڈائجسٹ، بلا تفریقِ "رنگ و نسل" آتے چلے گئے، لیکن جس شعبے نے مزاج کی منڈیر پہ ہم آہنگی کے دیپ روشن کیے، وہ طنز و مزاح کا شعبہ تھا، جسے میں نے امام دین گجراتی سے لے کر مشتاق احمد یوسفی تک، کالج کی ابتدائی جماعتوں ہی میں سُڑک ڈالا۔

اَدب کی اس کوچہ گردی میں مَیں نے محسوس کیا کہ یہ طنز و مزاح اُردو اَدب کی ہر صنف کی رگ رگ میں سرایت کیے ہوئے ہے، جسے نقش پائے جاناں سمجھتے ہوئے میں نے کوچۂ رقیب میں جانے سے بھی گریز نہ کیا، لیکن جب ادب کی طلسم نگری میں "قلمی دشمنی" کی نیو رکھنا چاہی تو خاکے کی نقش گری دامنِ دل پہ بھرپور زلیخائی کر چکی تھی۔ فرحت اللہ بیگ، منٹو اور مفتی کی اپنے پیاروں سے انوکھی اور چٹ پٹی محبت میرے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے تھی، چناں چہ میں نے اپنے سلسلہ واردات کا آغاز اس طرح کیا کہ اس نام نہاد دشمنی کا پہلا تیر اُن بے تکلف دوستوں کی جانب پھینکا، جن کے ظروف پہ زندہ دلی کی ڈھال ذرا مضبوط نظر آتی تھی۔ پھر اُن اساتذہ کا انتخاب کیا، جن کے ہاں مروّت کا شیرہ کچھ گاڑھا دکھائی دیا، کچھ ایسے ادیب ہدف پہ رکھے، جن کی طرف سے جوابی کارروائی کا خدشہ یا اندیشہ دور دور تک موجود نہ تھا۔ اپنے خُبثِ باطن کو کسی کڑی آزمائش سے بچانے کے لیے ان سب کے شانہ بشانہ کچھ فرضی اور کم فرضی کردار بھی کھڑے کر لیے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنی خاکہ نگاری کی خشتِ اول اورینٹل کالج میں اپنے ایم اے اُردو کے ہم جماعت ناصر اقبال (پریارہے ہمارا) کی دوستی پر رکھی، کانٹوں اور پھولوں کا دوسرا گلدستہ استادِ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (بھلا مانس پروفیسر) کی خدمت میں پیش کیا، ادیبوں میں عہد ضیاء الحق کو دورِ ضیاع قرار دے کر ترک وطن کر جانے والے مشتاق احمد یوسفی کو "بھگوڑا" قرار دے کر چونتیس فرداتِ جرم عاید کیں۔ یوسفی صاحب نے اسے پڑھا تو مجھے خط لکھا:

"عزیزم اشفاق صاحب! مضمون دلچسپ ہے۔ آپ نے ندرت پیدا کی ہے۔ فردِ جرم دراصل مِدحتِ مسلسل ہے۔ تعریف میں آپ نے خوش عقیدگی اور غلو سے کام لیا ہے۔ اگر مَیں کہوں کہ یہ اچھا نہ لگا تو جھوٹ ہوگا۔"

خاکے کے میدان میں مجھے ممتاز مفتی کے کھٹ میٹھے اسلوب نے عرصے سے گھائل کر رکھا تھا، دل میں شدید خواہش تھی کہ اپنے خاکوں کے بارے میں بھی ان سے رائے لی جائے، لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی کیوں کہ اُن کے بارے میں سن رکھاتھا کہ نہایت منھ پھٹ واقع ہوئے ہیں، چناں چہ میں نے انھیں اپنا مسودہ بذریعہ سفارش ارسال کرنے کی ٹھانی۔

یہ ۱۹۹۱ء کے اوائل کی بات ہے، جب مَیں سیالکوٹ سے بوجوہ کنارہ کشی اختیار کرکے کمالیہ میں تعینات تھا جہاں میری سماجی زندگی کا درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی نیچے تھا۔ نشست و برخاست کی جگہ نوشت و خواند نے لے رکھی تھی، نتیجہ کتاب کے مسودے کی تیاری کی صورت سامنے آیا۔ جناب مشتاق احمد یوسفی اور انور مسعود کی جانب سے فلیپ کی خوش خبریوں نے مہمیز کا کام دیا۔ ممتاز مفتی والی منزل سر کرنے کے لیے میں نے اپنی ایم اے اُردو کی ہم جماعت نائلہ بٹ سے رابطہ کیا، جو مفتی جی پر ایم اے کا بھرپور مقالہ تحریر کر چکی تھی۔ نائلہ نے میرا مسودہ میری خواہش پر، فلیپ کی سفارش کے ساتھ مفتی جی کو ارسال کر دیا اور ساتھ ہی خبردار کر دیا کہ آپ کے کہنے پر میں نے مسودہ تو بھجوا دیا ہے لیکن فلیپ کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتی، کیونکہ حضرت بہت موڈی واقع ہوئے ہیں۔ اُن کا ردِ عمل کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ فوراً ہی ردِ عمل سامنے آگیا۔ نائلہ نے مجھے فون کیا کہ مفتی نے جوابی خط میں فلیپ بھجوانے کے بجائے مجھے لکھا کہ جن صاحب کی یہ تحریریں ہیں، مجھے اس کا پوسٹل ایڈریس بھجواؤ اور تم ایک سائیڈ پہ ہو جاؤ، چنانچہ میں نے انھیں تمھارا کمالیہ والا پتا ارسال کر دیا ہے۔ تمھیں پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ حضرت الٹی کھوپڑی والے ہیں، اب تم جانو اور وہ ?نائلہ کے فون کے پانچوین دن مجھے ایک خط موصول ہوا، جس کے اوپر بڑے بڑے الفاظ میں ایک طرف میرا اور دوسری جانب ممتاز مفتی کا پتا تحریر تھا۔ ویلنٹائن ڈے کو موصول ہونے والے اس پہلے اور پھر ڈھیر سارے خطوط کے تیور اور مندرجات دل چسپ بھی تھے اور انوکھے بھی۔ ذرا پہلے خط کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

"اشفاق احمد ورک! میں نائیلہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے تم سے متعارف کرایا۔

نائیلہ نے حکم دیا کہ میں تمھارے کتاب کا ڈسٹ کور لکھوں۔ میں تنقید نہیں لکھتا۔ نہیں مانتا۔ سمجھتا ہوں کہ لوگ سستی شہرت اور مفت کا احساس برتری حاصل کرنے کے لیے تنقید لکھتے ہیں لیکن میں نے نائیلہ کا حکم مانااور ڈسٹ کور لکھ کر اسے بھیج دیا ہے، میں اصولوں کی نسبت اپنوں کو زیادہ مانتا ہوں۔

یہاں بات ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن بد قسمتی سے نائیلہ نے تمھاری دو چار تحریریں مجھے بھیج دیں۔ مَیں نے انھیں پڑھا اور میرے دل میں تمھارے لیے ایک concern پیدا ہو گئی۔ یہ کنسرن بڑی لعنتی چیز ہے، خوار کرتی ہے۔ دونوں کو۔ اسی وجہ سے میں تمھیں چند ایک مشورے دینے پر مجبور ہوں۔ جہاں تک مزاح کا تعلق ہے میں تمھیں کوئی مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوں لیکن ذیلی مشورے دے سکتا ہوں:

۱۔ بہتر ہوتا کہ تم شخصیتوں کا مجموعہ الگ رکھتے، مضامین کاالگ۔ کھچڑی نہ پکاتے۔ ہانڈی میں دال چاول مل جاتے ہیں، تحریر میں نہیں۔ تمھاری شخصیتوں کا معیار اونچا ہے۔

۲۔ تم نے اونچا معیار قائم کرکے مصیبت مول لے لی ہے اونچا معیار قائم کر لینا ممکن ہے، اسے maintain کرنا مشکل ہے، جیسے ایک شوہر کو پھانس لینا آسان ہے اس سے نباہ کرنا مشکل ہے۔

۳۔ بحیثیت مزاح نگار تم کسی کی برملا تعریف یا بد تعریفی نہیں کر سکتے۔ پھونک مار کر دیا نہیں بجھا سکتے، پلّو مارنا پڑے گا، ہونٹوں سے بات نہیں کر سکتے (اُکھ نال گل کر گئی)۔

۴۔ جان لو کہ تم بڑے مزاح نگا رہو۔ چھوٹی بات کرنے کی تمھیں اجازت نہیں دی جا سکتی۔

"ممتاز مفتی اور میری عمر میں ساٹھ سال کا فرق تھا لیکن ان کی محبت، اپنائیت اور خلوص کی بنا پر ہم لنگوٹیے یار بن گئے۔ میری ذاتی اور ادبی زندگی میں قدم قدم پر ان کے مشورے درجنوں خطوط میں بھرے پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اکتوبر کا آخری ہفتہ آتا ہے تو مجھے اور کچھ یاد آئے نہ آئے، ممتاز مفتی ضرور یاد آتا ہے۔ (جاری ہے)