دنیا بھر میں سال مہینے اور دنوں کو ہمیشہ خاص اہمیت رہی ہے۔ عید، دیوالی، کرسمس، بہ ظاہر تو عام دنوں جیسے دن ہوتے ہیں۔ ان تمام دنوں میں صبحیں، دوپہریں، شامیں اسی موسم کے رنگ میں ڈھلی ہوتی ہیں، راتیں اُسی رفتار سے بسر ہوتی ہیں لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ احساس کی سطح پہ ان دنوں کو عام دنوں سے ممتاز حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح اتوار اور پیر میں بھی کہنے کو توکوئی فرق نہیں، ان دونوں دنوں میں سورج اسی معمول سے طلوع ہوتا ہے لیکن یہی بات کسی ملازم سے کر کے دیکھیے، وہ کم از کم آپ کو کھا جانے والی نظروں سے ضرور دیکھے گا۔ ہمیں تو یہ شعر بھی کسی سرکاری ملازم کا لگتا ہے:
زمانہ بڑا سخت گیر آ گیا ہے
اُٹھو سونے والو کہ پیر آ گیا ہے
اس امر کا تجربہ کسی گھر کے فردپہ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ ذرا اپنے کسی عزیز سے عزیز بچے یا ہمت ہے تو زوجۂ محترمہ سے کہہ کے دیکھ لیجیے کہ اس کی سالگرہ کا دن بھی عام دنوں جیسا ہے، ہمارا خیال ہے اُن کے ردِ عمل ہی سے آپ کو دنوں کی انفرادیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ بعینہ اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کا بھی ایک ہی جیسا موسمی مزاج ہوتا ہے لیکن خیالوں اور حوالوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ دونوں دن پوری دنیا کے حواس پر الگ الگ انداز میں سوار ہوتے ہیں۔ پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنوں کی طرح مہینے بھی اپنا اپنا الگ مزاج اور رواج لے کے آتے ہیں۔ ہم جب کشور کی آواز میں سنتے ہیں: میرے نیناں ساون بھادوں ?، یا پروین شاکر جب کہتی ہے: چاند بھی عین چیت کا?، یا پھر بانو قدسیہ اپنے ناول کی کسی ہیروئن سے متعلق لکھتی ہیں کہ اُس کا رنگ اکتوبر کی دھوپ جیسا سفید تھا، تو یہ الفاظ یقیناً عام لفظوں سے زیادہ وقیع ہو جاتے ہیں جو ہمیں ایک خاص کیفیت میں لے جاتے ہیں۔
پھر جہاں تک ہماری پنجابی ثقافت کا معاملہ ہے، گاؤں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ جانتے ہیں کہ بیساکھی، صرف ایک مہینے یا گندم کی کٹائی ہی کا حوالہ نہیں، پورا کلچر اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ بچپن میں ہمیں سارا سال جیٹھ کی پہلی جمعرات کا پیر بہار شاہ اور بارہ ہاڑ کا اپنے لگڑدادا میاں شرف دین جنھیں عرفِ عام میں شاہ شرف کہا جاتاہے، کے میلے کی وجہ سے انتظار رہتا تھا۔ اس وقت تو لگتا تھا کہ زندگی کا لطف ہے ہی ان میلوں ٹھیلوں کی وجہ سے۔ ہمارے دوست پروفیسر علی آصف نے بتایا کہ ان کے گاؤں کا ایک دوست کہیں زیارتوں پہ گیا ہوا تھا۔ ایک دن وہ کسی مقدس مقام پہ بیٹھا رونے لگا۔ ساتھیوں نے وجہ پوچھی تو ڈُسکتے ہوئے بولا:" کتنا بد قسمت ہوں کہ پنڈ میں ٹِبی ولا میلہ لگا ہوا ہے اور مَیں یہاں بیٹھا ہوں"
ہمیں یہ بھی اندازہ ہے کہ ان میلوں ٹھیلوں کا اصل مزہ تھا بھی دیسی مہینوں کے ناموں کیساتھ، اس لیے ہمیں آج تک یاد نہ ہو سکا کہ یہ میلے ستمبر اکتوبر یا مئی جون کی کون سی تاریخ کو آتے ہیں۔ دیہی ثقافت میں دیسی مہینوں کے یہ نام گانوں اور ماہیوں میں بھی اور طرح کا لطف بھر دیتے تھے:
پنجابن ٹھیٹھ ماہیا، مہینہ جیٹھ ماہیا
پانی آ گیا پُلاں دے ہیٹھ ماہیا
ماں ہمیشہ مجھے یہی بتاتی رہی کہ بیٹا تم سولہ پوہ کو پیدا ہوئے تھے، یہ تیس دسمبر تو میری ذاتی چالاکی یا سرکاری قسم کی ضروریات کی وجہ سے در آیاہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ آج بھی جب کوئی لڑکی یونیورسٹی میں مجھے بتاتی ہے کہ وہ ذات کی جاٹ ہے یا اس کا تعلق کسی گاؤں سے ہے، تو مَیں اس کو آزمانے کیلئے صرف یہی پوچھتا ہوں کہ بیٹا ذرا دیسی مہینوں کے نام تو بتا دو!
جب سے ہمارا شہر میں ورود ہوا ہے، انگریزی کلینڈر سے بھی پوری طرح مانوس ہو گئے ہیں کیونکہ یہاں ہر کام اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ ہمارا نوکری پہ تقرر، تنخواہ، ریٹائرمنٹ اسی کے ساتھ منسلک ہے۔ اب ہمارے بچے ماگھ، پوہ میں نہیں جنوری فروری میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے جذبات ذوالحجہ یا پوہ کے خاتمے پر اس قدر انگیخت نہیں ہوتے، جتنا دسمبر کی رخصتی ہمیں رلاتی یا اداس کرتی ہے۔ گزشتہ برس کسی ایسی ہی کیفیت میں ایک غزل ہمارے قلم سے ادا ہو گئی، جس کے چند اشعار یہ ہیں:
آنکھیں کھول کے دیکھ دسمبر/ اپنی ہر مِس ٹیک دسمبر/ تُو ہے سال کا آخری بیٹا/ تُو تو ہو جا نیک دسمبر / دل والوں کی گنتی اندر / تُو ہے نمبر ایک دسمبر / تیس کو اپنی سالگرہ ہے / آ کے کھا لے کیک دسمبر
اب کے تیس دسمبر آئی تو دسمبر کی دوستی میں ایک طویل غزل اسی مشکل قافیے کے ساتھ ٹپک پڑی، جس کے چند اشعار دیکھیے:
دانتوں کو نہ پیس دسمبر/آ پہنچی ہے تیس دسمبر/ پیار محبت جتلانے کی/اتنی بھاری فیس دسمبر/ تجھ کو جب جب یاد کریں گے/دل میں اُٹھے گی ٹِیس دسمبر/دنیا جس کی دیوانی تھی/ کہاں گیا وہ پیس دسمبر؟ / تیرا ہر اِک کام نرالا/کب ہو تیری رِیس دسمبر/ سرد روی اور سفاکی/ تیری ہے تخصیص دسمبر/ہر کوئی تھر تھر کانپ رہا ہے/ کون نِوائے سِیس دسمبر/باقی سب بھی تیرے جیسے/دس، پندرہ اور بیس دسمبر
بلکہ اس سال تو دسمبر کچھ اور بھی شدومد کے ساتھ اعصاب پہ سوار رہا اور آنے والا ہر کلام اسی حوالے سے نازل ہوا، چند نمونے اس کے بھی دیکھ لیجیے:
٭ گر ہو اُس کی دید دسمبر / ہو جائے پھر عید دسمبر / سیدھی بات بتاؤ ہم کو / رہنے دو تمہید دسمبر /جو بھی تم کو ظالم بولے / کر اُس کی تردید دسمبر/ دل تو اب تک یہ کہتا ہے / کچھ دن اور مزید دسمبر
٭ گل سن میری یار دسمبر/ آر ہوا نہ پار دسمبر /
٭ جیسا تیرا رُوپ دسمبر/ویسی تیری دھوپ دسمبر
٭ بات کو دے نہ طول دسمبر/ کُول دسمبر، کول دسمبر / تجھ سے پیار جتانے کی مَیں / کر بیٹھا تھا بھول دسمبر / اب تو تم کو رخصت کرنے / لے آیا ہوں پھول دسمبر
٭ اسمانوں پہ موجیں مار/دھرتی اوپر تَیر دسمبر/ایک برس کا ساتھ ہمارا/اگلے سال میں پَیر دسمبر/تیرے موسم دُھند میں لپٹے/تُو ہے سدا کا غَیر دسمبر/سب کے ساتھ بنا کے رکھ/چھوڑدے سارے بَیر دسمبر/ہر لب پہ بس ایک دعا ہے/ شالا تیری خیر دسمبر!