ہم اپنی تین دہائیوں پر مشتمل خاکی زندگی، میں کئی بار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خاکہ کشی کا اصل لطف تو عام آدمی پر قلم اٹھانے میں آ تا ہے۔ مفروضہ و مبالغہ کے جتنے چاہو مسالے ڈال لو، لوگ چٹخارے پہ چٹخارہ لیتے چلے جائیں گے۔ قلم و قیاس کے دانت جتنے مرضی تیز کر لو چاروں جانب داد و تحسین کے ڈونگرے برستے دکھائی اور سنائی دیں گے۔ عام آدمی کا خاکہ لکھنا تو دانتوں سے اخروٹ توڑنے جیسا کڑاکے دار عمل ہے۔ اس میں کہنی سے تربوز توڑنے جیسی بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ اس میں بکرے کی نلی سے مِخ سُڑکنے جیسا سرور پایا جاتا ہے۔ جبکہ بڑے آدمی سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا مطلب تو آ بَیل مجھے مار والا ہوتا ہے۔
قرۃالعین حیدر سے کسی نے انٹرویو لیتے ہوئے کہا: محترمہ ذرا اپنی شخصیت پر تو کچھ روشنی ڈالیں؟ ، اس پر محترمہ نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بولیں: " لاحول ولا قوۃ!!! مَیں اور شخصیت؟ ?بھائی میاں! شخصیت تو مولانا ابو الاعلیٰ مودودی یا بیگم رعنا لیاقت علی خاں کی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کہ جن کی علمی، ادبی اور تحقیقی کاوشوں سے اک عالم آگاہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انکے اندر ایک شریر بچہ ہر وقت کلکاریاں مارنے کیلئے بے چَین رہتا، منھ زور زندہ دلی چھپر پھاڑ کے باہر آنے کو ہمہ وقت تیار بیٹھی رہتی لیکن تاریخ کے کسی نازک موڑ پر ان کے ساتھ ایک عجیب حادثہ ہوا۔ ان کی آنکھوں کے عین سامنے حافظ محمود شیرانی کی شرافت و معقولیت اور محمد داؤد عرف اختر شیرانی کی شہرت و مقبولیت کے درمیان گھمسان کا رَن پڑا۔ حالات و واقعات کی وضع داری کے ہاتھوں شخصی طرح داری کو چاروں شانے چِت دیکھاتو خاندان والوں نے انھیں والد کی بجائے دادا کا بیٹا بننے پر مجبور کر دیا?ان کی صلاحیت و صالحیت کے صدقے جائیے، کہ بھری جوانی میں اپنی فطری شوخی و شرارت کو بالائے تاک جھانک رکھتے ہوئے، والد کی رومانوی و افسانوی دھونس میں آئے بغیر اور اہلِ خانہ کی منشا کے عین مطابق، بلا چون و چراں دادا کی " پوتو کاپی" بنتے چلے گئے۔
لیکن مَیں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ان کے باطن میں آخر تک حافظ و اختر، کی کھچڑی پکتی رہی۔ ان کی زندگی میں قدم قدم پر تخلیق اور تحقیق ککلی ڈالتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے اندر ایک محقق اور مزاح نگار مدتِ مدید تک کُشتی لڑتے رہے۔ مجھے تو یہ بھی یقین ہے کہ اگر کوئی باریک بیں محقق ذرا جی لگا کے ان کے قریۂ دل کی تلاشی لیتا تو شاید کسی کونے کھُدرے سے بھولی بِسری عذرا، سلمیٰ، ریحانہ، نہ سہی بھولی بَسری نشو، فردوس، ممتاز، بھی برآمد ہو جاتی۔
دوستو!تین نسلوں کی نیک نامی، وقار اور علمی تمکنت کو لیے لیے چلنے میں بھلے کتنا ہی سرُورکیوں نہ ہو، ہے بہرحال مشکل کام۔ اس میں اپنا ہی نہیں اوپر والی پیڑیوں کا بوجھ بھی ڈھونا پڑتا ہے۔ مشکل یہ پیش آتی ہے کہ زندگی میں جتنا بڑا تیر بھی مار لیں، لوگ یہی کہتے ملیں گے، فلاں کا بیٹا، فلاں کا پوتا۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ کہ اگر کبھی کہیں کوئی معمولی سی خطا یا لغزش سر زد ہو جائے تو بھی لوگ منھ بھر بھر کے یہی کہتے ہیں: فلاں کا بیٹا، فلاں کا پوتا۔
دوسری جانب مشاہیر قسم کے بزرگوں سے بال بال بچ جانے والے کھلنڈرے اور آوارہ لوگ ہیں کہ وہ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کیسی ہی بَونگی کیوں نہ مار لیں، لوگ نوٹس ہی نہیں لیتے، اور اگر کہیں اتفاق سے بھی، اُن سے کوئی ڈھنگ کا کام سر زد ہو جائے، تو لوگ تالیاں بجا بجا کے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ابنِ انشا لکھتے ہیں کہ ایک صاحب ان سے انٹرویو لینے آئے تو باتوں باتوں میں پوچھنے لگے: آپ کے خاندان میں پہلے بھی کوئی بڑی اور قابلِ ذکر شخصیت گزری ہے؟
مَیں نے آدمؑ کا نام لیا تو دوہرے ہو ہو کے آداب بجا لاتے رہے۔ پھر زیادہ دور کیوں جائیے خود ہماری مثال ہی دیکھ لیجیے، لوگ جانے کس اشتیاق میں آ آکے پوچھتے ہیں: پردادا کیا کام کرتے تھے؟ ہم مزے سے جواب دیتے ہیں: زمیندارا اور شادیاں کرتے تھے!! اوردادا جان؟ ہم عرض کرتے ہیں: جب تک جان میں جان رہی موصوف ہر ہفتے لاہور مُجرا سننے اور بادشاہی مسجد میں جمعہ پڑھنے جایا کرتے تھے۔ ذرا والدِ محترم کا بھی کچھ بتا دیں؟
وہ تو ہم نے جب سے ہوش سنبھالا بطور مرحوم، اچھی خاصی شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اس کے بعد کسی کو ذاتی سوال کرنے کی جرأت نہیں ہوتی اور ہمارے زندہ ہونے ہی کو کارنامہ سمجھ کے برداشت کر لیا جاتا ہے لیکن کسی علمی خانوادے کے چشم و چراغ کی بھلے جتنی بھی نیکیاں گنوا لو، جیسے ہی اجداد کا حوالہ آتا ہے، لوگ اقبال کا مصرع منھ پہ دے مارتے ہیں: تھے تو وہ آبا ہی تمہارے مگر تم کیا ہو؟
عام خاندان کے پاس ایک بڑی سہولت یہ بھی ہوتی ہے کہ بچے کا جیسا بھی دیسی، ولایتی، مشکل، آسان نام رکھ لیں، بلو، پپو، مُنا کی آڑ میں عمر بسر ہو جاتی ہے، نکاح نامے پہ اندراج کے علاوہ کبھی اصل نام کے انکشاف یا استعمال کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ مشاہیر کے بچوں کے تو نام بھی ہلکے پھلکے نہیں رکھے جا سکتے۔ بڑے خاندان میں تو عرف بھی عرفِ عام سے نہیں لیا جاتا۔ اپنے شیرانی صاحب ہی کو دیکھ لیجیے، گھر میں ننھے مُنے سے مظہر محمود شیرانی کی حیرانی اور پریشانی کو کم کرنے کے لیے، متبادل کیا ڈھونڈا? خوشنود?سبحان اللہ? یعنی نِک نیم میں بھی نیک نامی مدِ نظر ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ عامی شامی گھرانوں میں نِک نیم جیسے ہلکے پھلکے آئیٹم میں خ، کی خنکی، ش، کی شوکر اور د، کا دبکا کون برداشت کرتا ہے؟ (9 جنوری 2021ء کو ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کے حوالے سے منعقدہ ریفرنس میں پڑھا گیا)