Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Turkey Dramay Ki Adabi Khoobsurtian

Turkey Dramay Ki Adabi Khoobsurtian

ڈرامے کی بابت سنا ہے کہ یہ یونان سے شروع ہوا، لہٰذا یہ لفظ بھی اسی زبان سے مستعار ہے۔ باقی تمام اصناف کا تعلق پڑھنے سننے اور سر دُھننے سے ہوتا ہے، یہ واحد صنف ہے جس میں ہر چیز، ہر عمل، ہر جذبہ کر کے دکھایا جاتا ہے۔ دیگر اصناف میں اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ اس میں مصنف کی کہانی کاری کے ساتھ مکالمہ نگاری، فن کار کی اداکاری، لوکیشن مینجر کی سیٹ ڈیزائننگ، ، موسیقار کے صوتی کمالات، ہدایت کار کی ذہانت اور کیمرہ مین کی تکنیکی مہارت، سب مل کے ایک شاہکار کی تزئین و آرائش کرتے ہیں ? ترکی ڈراما ارطغرل غازی، جو دین کی دولت سے دم دم دمکتی داستان ہے، ان جملہ اوصاف کا خوبصورت گل دستہ ہے۔ یہی وجہ کہ یہ دل لگا کے دیکھنے والوں کو نشے کی طرح لگ گیا۔ اسے شروع کرنے کے بعد کسی فلم ڈرامے کے لیے طبیعت ہی نہیں مانی۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ ڈراماصرف دل بہلانے کا مشغلہ نہیں، کردار سازی کا مکمل پیکج بھی ہے۔

ڈرامے کے کردار اپنے اپنے رول میں یوں کھُبے اور دھنسے ہوئے ہیں جیسے دستانے میں ہاتھ?اس میں کسی سردار اور لیڈر کا طنطنہ، شوکت، بُردباری ملاحظہ کرنی ہو توسلیمان شاہ اور ارطغرل غازی کی چال ڈھال، گفتگو اور سوجھ بُوجھ پہ عمیق نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ ایک مثالی ماں، سمجھ دار سردارنی اور باوقار عورت کی جھلک دیکھنی ہو تو امّاں حائمہ سے بہتر کہیں کوئی کردار نہیں ملے گا۔ اعتماد، خوبصورتی، خاوند سے اٹوٹ محبت اور وفا کا پیکر تلاشنا ہو تو شاہی خاندان کے سارے آداب سے مزین حلیمہ سلطان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ شجاعت، شوقِ شہادت اور ولولہ انگیزی کے مظاہرے دیکھنا ہوں تو تُرگت، بامسی، روشان، تیمور، دومرل، سمسا حتیٰ کہ ابنِ عربی کی تبلیغ اور ارطغرل کے کردار سے متاثر ہو کے مسلمان ہو جانے والے خوف ناک ویلن اور عیسائی گورنر آرس (بعد میں احمد) پہ جھات ڈالی جا سکتی ہے۔ دانش و حکمت کا مرقع دیکھنا ہو تا تو ابنِ عربی، عارف بے، آلیار اور دیلی دمیر کی مثال دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح خواتین کے من موہنے، نرالے اور رنگا رنگ روپ دھیان میں لانے ہوں تو یہاں سلجان، گوکچے، آئکس، گونچاگل، گل بانو، اصلاحان، حلینہ (حفصہ) افطالیہ اور البلگائے کی صورت متنوع رویوں کی نہایت سچی اور فطری تصویریں ہیں۔ یہاں تک کہ اگر منفی کرداروں یاویلن کی نفرت انگیز شبیہیں ڈھونڈنا ہوں تو بھی کردوغلو، کارا توئیگر، پتریشیو، ٹائیٹس، ہانلی بازار کا سیمون، سعدتین کوپیک، کوچا بش، اورال، باتو خان، تنگوت، باچھو، ٹیو، ویسلوس، الباسطی، آریکوبوکا وغیرہ کے ساتھ انتہائی جان دار اور خوف ناک منگول کمانڈر نویان اس کی مکمل ترین مثال ہے۔

کردار سازی اور اداکاری کے علاوہ مجھے اس ڈرامے کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ اس کے مکالمے ہیں۔ جب ارطغرل کی بیوی حلیمہ سلطان فوت ہو جاتی ہے تو اس ڈرامے کا سب سے اکھڑ منگول ولن نویان، ارطغرل کے خلاف ہر حربے میں ناکامی کے بعد اپنی بہن آلانگیا، جسے وہ اس علاقے میں اپنی آنکھیں اور کان قرار دیتا ہے، کو قائی قبیلے میں ارطغرل کے بستر کے راستے جگہ بنانے کی تجویز دیتا ہے۔ بعد میں اس کی سست اور مایوس کُن کارکردگی دیکھ کے اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہتا ہے: "آلانگیا!اپنے اندر کی سوئی مرغی کو جگاؤ"

جب کاراچائیسر کے گورنر کی بیٹی حلینہ سے البیلے مجاہد بامسی کو عشق ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں اسے مخاطب کر کے کہتا ہے:

"میری آنکھوں کو سورج اندھا کر دے گا یا تمھاری آنکھیں ?ایک موقع پر ارطغرل غازی، منگول سردار آلنچک کی چالبازیوں اور مسلسل فراڈ کے جواب میں چکمے والی پلاننگ کرتا ہے، جب احباب اس دھوکا دہی پر اعتراض کرتے ہیں تو وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:" اگر کتے کی حکمرانی ہے تو بھیڑیے کا قانون بھی ہے۔"

سلجان جب واپس قبیلے میں آتی ہے تو اس کی بھابی سرد مہری کا مظاہرہ کرتی ہے، جسے دیکھ کر وہ کہتی ہے:" کیا بات ہے زہرہ! تمھارا چہرہ کنویں کی بالٹی کی طرح کیوں لٹک گیا ہے؟ "اسی طرح وہ ارطغرل کی من موہنی محبوبہ سے یوں مخاطب ہوتی ہے: " میرے آگے آگے چلو تاکہ میرا راستہ روشن ہو"ایک موقع پر ارطغرل، اپنے جنگ جُو بیٹے عثمان سے کہتا ہے: "ایک بہادر کو اپنے گھوڑے اور تلوار کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔"

اسی طرح کے چند مزید تخلیقی جملے دیکھ کے اندازہ کیجیے کہ اگر ترجمے میں تاثیر اور تنویر کا یہ عالم ہے تو اصل زبان میں ان کی جادو گری کا کیا عالم ہوگا؟ پھر اصل بات یہ کہ یہ صرف مزے لینے والے جملے ہی نہیں بلکہ ہمارے سماج، ہمارے معاملات، ہماری سیاسی زندگی کی چلتی پھرتی دانش مندانہ عکاسی ہے، جس میں سیکھنے اور سوچنے والوں کے لیے نصیحت، عبرت اور استقامت کے بہت سے پہلو چھپے ہوئے ہیں۔

٭ اگر آپ کو کسی اچھے مشن میں کامیابی کی توقع نہیں بھی تو سب سے پہلے ٹھونکی جانے والی کیل تو بن جاؤ۔

٭ ہم نے اپنے لوہے کے پنجوں سے اندھیرے کا نقاب پھاڑ دیا ہے۔

٭ اس پیالے میں پانی نہ پیو، جس کا پیندا نظر نہ آتا ہو۔

٭ جب بَیل کی موت قریب آتی ہے تو وہ قصاب کی چھری چاٹنے لگتا ہے۔

٭ اگر بلی کو ہوا میں اُڑنا سکھا دیا جاتا تو آسمان پر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا۔

٭ وہ انسان جو گرمیوں میں سست ہوتا ہے، سردیوں میں وہ اپنی رُوئی برف سے بناتا ہے۔

٭ محفل میں کلام بڑوں کے لیے اور خاموشی چھوٹوں کے لیے ہوتی ہے۔

٭ قاتل تاریخ کے سب سے کم پیارے بچے ہیں۔

٭ اگر مَیں حق سے بھاگوں تو کالی تلوار مجھے پکی فصلوں کی طرح کاٹ دے۔

٭ اگر بازنطینیوں کی دس زبانیں ہوں تو ہر ایک سے جھوٹ ہی نکلے گا۔

٭ بَیل کی خوش قسمتی اس کے سینگوں سے آتی ہے۔

٭ جس طرح گھوڑا قدموں کا تیز ہوتا ہے، اسی طرح شاعر زبان کا تیز ہوتا ہے۔

٭ جو برائی کو دیکھ کے خاموش رہے وہ گونگا شیطان ہے۔

٭ زمین کو پانی ملے تو مٹی بنتی ہے اور خون ملے تو وطن بنتا ہے۔

٭ لائق اور بہادر بیٹا تو باپ کے آتش دان کی آگ ہوتا ہے۔

٭ سجدہ اپنے مالک کے سامنے اپنے نہ ہونے کا اعتراف ہے۔

٭ بھٹی بغیر دھویں کے اور شوہر بغیر غصے کے نہیں ہوتا۔

٭ ترس سے بد امنی پیدا ہوتی ہے۔ پھر ارطغرل کا اپنے شریر اور جھگڑالو صفت مخالفین کے لیے بولا گیا یہ جملہ دیکھیے اور ماضی سے حال کا مزہ کشید کیجیے:"وہ جنگ چاہتے ہیں لیکن ہم ان کی چکی کو چلانے کے لیے پانی مہیا نہیں کریں گے۔"