(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے بعد بھارت نے پاکستان کےنقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کر لیا اور اب ان کے ہاں بھی پاکستان کی طرز کا "بھارتی اعلیٰ تعلیمی کمیشن" قائم کر لیا گیا ہے جو کہ بھارتی جامعاتی گرانٹ کمیشن کی جگہ کام کرے گا۔ بین الاقوامی ماہرین کی ایک بڑی تعداد نے 2006اور 2008کے درمیان پاکستان کا دورہ کیا، جس میں اقوام متحدہ کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی و ترقی، یو ایس ایڈ اور عالمی بینک کے ماہرین تعلیم شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی اداروں کی ٹیم نے ملک کے طول و عرض میں 2006میں دورہ کیا اور جامعات کے اساتذہ، طالب علموں اور منتظمین سے بات چیت کی اور پھر اپنی رپورٹ میں لکھا "ایچ ای سی کے قیام سے اب تک سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ہر شعبے میں عمدگی اور اعلیٰ معیار پر زور ہے۔ معیار پر توجہ مرکوز رکھنے میں، ایچ ای سی کی قیادت کا رویہ یہ تھا کہ "معیار مقدار سے کہیں زیادہ اہم ہے"۔ پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے نظام کا بہت مثبت جائزہ، سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی پر اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین پروفیسر مائیکل روڈ نے بھی کیا اور 2002سے 2008کو پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کا سنہرا دور قرار دیا تھامسن روئیٹرز دنیا کی معروف کمپنی جو سائنس اور بین الاقوامی حوالہ جات کے اعداد و شمار شائع کرتی ہے، اس نے بھی پاکستان کا برازیل، روس، بھارت اور چین برِک ممالک سے موازنہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کے مقابلے میں پاکستان کے تحقیقی مقالوں کے حوالوں میں بہتری کی شرح کسی بھی برِک ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
بدقسمتی سے بعض طاقتور بین الاقوامی ایجنسیاں ہماری ملک دشمن قوتوں سے مل کر ملک کی جڑیں کھکوکھلی کرنا چاہتی ہیں۔ ان پاکستان مخالف قوتوں کا واحد مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو صرف انڈر گریجویٹ تعلیم پر توجہ دینے تک ہی محدود رکھا جائے اور اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کو بھلا دیا جائے۔ یہ ایک سنگین گھناؤنا منصوبہ ہے کہ پاکستان کو بھارت سے کم تر رکھا جائے تاکہ ہم کبھی خودمختار نہ ہو سکیں یا دفاعی اشیاء بشمول اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمد میں ایک قوت کے طور پر نہ ابھر سکیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے افسران کو اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔ یہ پریشان کن بات ہے کہ ایچ ای سی نے حال میں کئی پروگرام بند کر دئیے ہیں جو کہ یہ ہیں (1)تازہ ترین پی ایچ ڈی ڈگری محصول کنندگان کے لئے ابتدائی تحقیقی گرانٹ پروگرام (2)سائنسی آلات کی مرمت اور بحالی کے لئے گرانٹس (3)سائنسی ساز و سامان تک رسائی کا پروگرام (4)تحقیقی سفری گرانٹ برائے جامعاتی فیکلٹی اور طلباء (5)سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسوں کے انعقاد کے لئے گرانٹس اور (6)سب سے زیادہ اہم پی ایچ ڈی کی سطح کی تربیت کے لئے غیر ملکی اسکالرشپ پروگرام جس میں بری طرح سے کمی ہوئی ہے۔ یہ اقدامات اعلیٰ تعلیم کے لئے بہت مضر ہیں اورکسی گھناؤنی سازش کا ثبوت ہیں۔ موجودہ فیکلٹی ممبران سہولتوں کی کمی تحقیقاتی فنڈز اور سائنسی ساز و سامان تک رسائی کے حصول کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہ کئے جا رہے ہیں۔ اس لئے بہت سے اساتذہ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایچ ای سی کی طرف سے صرف انڈر گریجویٹ تعلیم پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جبکہ انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام دونوں اہم ہیں اور ایچ ای سی کو دونوں پر زور دینا چاہئے۔
میں نے اس سلسلے میں وزیرِ اعظم صاحب کو بھی خط لکھا ہے جسکے نتیجے میں ایچ ای سی نے ان پروگراموں کے بند ہونے سے صاف انکار کیا ہے۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے اور جامعات کے اساتذہ کو اس سچ کا پتا ہے اور ایچ ای سی کی ویب سائٹ میں بھی یہ حقیقت واضح تھی جسے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب یہ ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اعلیٰ تعلیمی نظام کو بحال کرئے کیونکہ کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ اسکے ملک کا تعلیمی نظام تباہ کر دیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری موجودہ قیادت وطن اور علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس باب میں مثبت اقدامات کرئے گی۔