موجودہ حکومت نے تمام شعبوں میں اپنی دلچسپی کا ثبوت دیتے ہوئے مثبت اقدامات کا ایک طویل سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پاکستان کو اس وقت درپیش اہم اقتصادی مسائل کا سامنا اس لئے ہے کہ ماضی کی حکومتیں اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہیں کہ دورِ جدید میں اقتصادی ترقی کیلئے وقت کی اہم ضرورت کیا ہے۔ دراصل دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کیلئے ہمیں اپنے انسانی وسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مضبوط علمی معیشت کو اپنی ترقی کا راستہ بنانا چاہئے تاکہ چوتھا صنعتی انقلاب جو آچکا ہے اس میں ہم اور ممالک کے مقابلے میں سر فہرست ہوں۔ اس وقت ہماری برآمدات کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ کپڑا سازی کی صنعت پر مشتمل ہے جو عالمی سطح پر مجموعی طور پر عالمی منڈی کے صرف ایک مختصر حصے کے برابر ہے۔
ملکی ترقی اور بقا کیلئے مضبوط علمی معیشت کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قومی ترقی اور مضبوط علمی معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسی اہمیت کے پیش نظر موجودہ حکومت بڑی تندہی اور جفاکشی سے تارکین وطن پاکستانی، اعلیٰ ماہرین، اسکول، کالج اور جامعات کی سطح پر تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے بہت سے اہم منصوبے مرتب کر رہی ہے۔ قومی آن لائن ٹیچر ٹریننگ پروگرام (13ارب روپے کی لاگت)جس کے ذریعے پچاس ہزار اسکول اساتذہ کی تربیت کی جائے گی جس سے بنیادی اور ثانوی تعلیم کو بہتر بنایا جا سکے گا۔ کالج اورجامعہ کی تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے 10.7 ارب روپے کی لاگت کے تعلیمی منصوبے تیار کئے گئے ہیں جن میں معروف جامعات سے آن لائن کورسز دستیاب ہیں۔ اس طرح کے کورسز کی مفت فراہمی کا آغاز پہلے ہی جامعہ کراچی میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی سا ئنسز میں ہو چکا ہے۔
پاکستان میں ایک اور اہم شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔ توقع ہے کہ زراعت، صنعت، صحت، نقل و حمل اور دفاع میں مصنوعی ذہانت کے بہترین استعمال کے باعث اگلی دہائی میں تقریباً 15بلین ڈالر کا کاروبار ہو سکے گا۔ اسی لئے یورپ اور امریکہ میں ہمارے تارکین وطن ماہرین کی مشاورت سے تیزی سے بڑھتے ہوئے اس شعبےمیں بہت سے پروگرام شروع کئے جا رہے ہیں۔ ملک بھر میں بڑے تربیتی مراکز قائم کئے جا رہے ہیں جس سےتوقع ہے کہ ہم اس شعبے میں عالمی رہنما کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ اس شعبےکے تابناک مستقبل کے حصول کیلئے مصنو عی ذہانت کے شعبے پر علم پر مبنی ٹاسک فورس کے بجٹ سے تقریباً 40ارب روپے چار سال میں خرچ کئے جائینگے۔ جب تحقیق کی راہیں ہموار ہوں تو جدید ٹیکنالوجی اورجدت طرازی کے فروغ کے لئے مخصوص شعبوں میں نئی کمپنیوں کا قیام انتہائی ضروری ہوتا ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ا س باب میں سرمایہ کاری فنڈز، قانونی، مالیاتی خدمات اور مناسب پالیسیاں مرتب کی جائیں۔ اس مقصد کیلئے ایک اہم قومی منصوبہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی سینئر فیکلٹی کی طرف سے تیار کیا گیا ہے۔
مضبوط علمی معیشت کے قیام کے لئےسائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں خصوصی توجہ انتہائی اہم ہے۔ ایک پائلٹ منصوبے کے تحت، اسکولوں میں آٹھ تا بارہ جماعتوں کے لئے سولیباریٹریاں قائم کرکے بیس ہزار طلبہ کو ان شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ 152 اضلاع کے ڈھائی ہزار اسکولوں میں ای لرننگ کے تحت ایک منصوبےکا بھی آغاز کیا جا رہا ہے۔ تکنیکی تعلیم میں ترقی کے لئے جرمنی، آسٹریلیا اور چین کے تعاون سے، پچاس تربیتی اداروں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ جس کے لئے بیرون ملک جامعات میں دو ہزار انجینئروں کی تربیت کی جائیگی۔
2000 سے 2008ء کے دوران پاکستان نے ایچ ای سی کے قیام کے بعد اعلیٰ ٰتعلیم کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کی کئی جامعات کا شمار دنیاکی چوٹی کی تین سو سے پانچ سو تک کی جامعات کےدرمیان ہو گیا تھا۔ لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے یہ شعبہ بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کی کوئی بھی جامعہ عالمی سطح پر چوٹی کی پانچ سو جامعات کی صف میں شامل نہیں ہے۔ ادھر ملک دشمنوں نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اُدھر بھارت نے پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی 2000 تا 2008 کی شاندار ترقی سے متاثر ہو کر بھارتی اعلیٰ تعلیمی کمیشن قائم کر لیا۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جن اقدامات کو دوسرے ممالک سراہ رہے ہیں اور ان کو اپنا رہے ہیں، ان اقدامات کو ہمارے اپنے لوگ بر با د کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ہم اب مایوس نہیں کیونکہ موجودہ حکومت کی جانب سے سنجیدہ منصوبوں کے تحت ان شاء اللہ ایک اور شاندار ترقی کے باب کا آغاز ہوگا۔ پاکستان کو بھوک، افلاس اور غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، ہماری حقیقی دولت بیس سال سے کم عمر دس کروڑ نوجوانوں میں پوشیدہ ہے جو ہماری آبادی کا 56فیصد حصہ ہیں۔
یہ ہمارے لئے بہت سے مغربی ممالک کے مقابلے میں بڑی خوش آئند بات ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اس شاندار موقع سے فائدہ اٹھانے کا یہی موزوں وقت ہے کیونکہ اگلی تین دہائیوں کے بعد یہ موقع ہمارے ہاتھ سے نکل جائےگا، لہٰذا "ابھی نہیں تو کبھی نہیں " پر عمل کرتے ہوئے ہمیں جلد مندرجہ بالا منصوبوں پر عملدرآمد کرنا ہوگا کیونکہ اسی میں ملک و عوام کی بقا ہے اور یہی ہمارے تحفظ کے ضامن ہیں۔
اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان نے میری اس تجویز کی اصولی طور پر منطوری دے دی ہے کہ بد عنوانوں سےرقم نیب اور حکومت واپس حاصل کرے گی اس کو ایک علیحدہ اکاؤنٹ میں رکھا جائے گا جو ایک پاکستان کے چوٹی کے ماہرین پر مشتمل بورڈ کنٹرول کرےگااور وہ صرف تعلیم و تحقیق کے لئے استعمال ہوگی، اس کے ذریعے کئی ہزار ارب روپے جمع کئے جا سکتے ہیں جو پاکستان میں ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت قائم کرنے میں مدد کریں گے۔