اب یہ خبر کسی پاکستا نی اخبار کی نہیں، بلکہ ایک جرمن جریدہ کی ہے جو بتا رہی ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہندو قوم پرست ریاست میں تبدیل کر رہے ہیں۔ بھارت کے بیس کروڑ عوام اب خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ یہ کہ متنازع شہر یت ایکٹ سے مظاہرے شروع ہوئے لیکن حقیقت میں ملک کی خود ساختہ شبیہ پر سوال اٹھ گئے ہیں کہ بھارت کس طرح کا ملک بننا چاہ رہا ہے۔ یہ تو تھا جرمن جریدہ کی خبرکا ایک چھوٹا سا ٹکڑا، اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور برہمی اب ہندوستانی حدود سے نکل کر آفاقی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ مودی کے اقتدار نے جمہوریت اور سیکولرازم کے چراغ ایک ایک کرکے گل کرنے کی جو فسطائی روش اپنائی ہے، اس کے ردّ عمل کے لیے عالمی برادری کی ایک توانا صدا بھی عدلیہ میں گونجی ہے۔ ذرائع ابلاع کے مطابق اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بی شلٹ نے بھارتی حکومت کی مخالفت کے باوجود متنازع شہریت قانون میں مداخلت کے لیے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے جس پر بھارت آگ بگولا ہوگیا۔
مودی حکومت کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شہریت قانون اندرونی معاملہ ہے کسی غیر ملکی ادارے کو بھارت کی خود مختاری سے متعلق امور عدالت لے جانے کا کوئی حق نہیں۔ یہی رعونت آمیز فسطائیت مودی حکومت نے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے وقت بھی دکھائی، بظاہر بھارت نے آئینی، پارلیمانی اور جمہوری چہرہ دکھا کر عالمگیر جعل سازی اور مکر و فریب سے کام لیا اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں قانون سازی کی آڑ لی مگر اپنی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے کشمیری عوام پر ظلم و بربریت اور جارحیت کے لیے ایک شرمناک حکمت عملی تیار کی اور کشمیر کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو طاقت کے ذریعے بدل ڈالا۔ یہ جدید نوآبادیاتی اور استعمار پسندانہ پالیسی کی وہ چنگاری تھی جس نے جنت نظیر وادی کو انگار وادی اور دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا کر رکھ دیا جس میں بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کی اجتماعی موت واقع ہوگئی۔ مودی کی ظلم پرستی کشمیری عوام کو لاک ڈائون کرنے کے ساتھ ہی بے قابو ہوگئی، بھارتی حکمران دیدہ دلیر ہوگئے اور رفتہ رفتہ گجرات جیسے اندوہناک سانحے کا ری پلے ہندوستانی سیاست کے نئے مکروہ روپ میں ظاہر ہوگیا اور آج کا بھارت خود ان کے سابق رہنمائوں، مفکروں، دانشوروں، ججوں اور سابق فوجی سربراہوں کے بیانات کے مطابق تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے جس کی ابتدا دہلی کے خونی واقعات سے ہوئی ہے۔ اسے باضمیر بھارتی ادیب، فنکار اور اپوزیشن سیاسی رہنما "خاتمہ کی شروعات" کا نام دیتے ہیں۔ اوریہ رپو ر ٹ ہندوستان ٹائمز کی ہے جس کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے جنیوا میں بھارت کے مستقل مشن کو متنازعہ شہرت ایکٹ پر بھارتی سپریم کورٹ میں مداخلت کی درخواست دائر کرنے کے حوالے سے پیر کی شام آگاہ کیا تھا۔
واضح کردوں کہ مشل بی شلٹ نے گزشتہ ہفتے متنازع شہریت قانون، عوامی مظاہروں اور دہلی فسادات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تشدد کے واقعات کو رکوائے۔ مودی حکومت نے ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے "مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد" کے بیان اور بھارت پر تنقید کے خلاف ایرانی سفیر علی چیگنی کو طلب کرکے سخت احتجاج کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کو ایران کی جانب سے کسی ایسے تبصرے کی امید نہیں تھی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کانگریس کے سینئر رہنما چدم برم نے بھارتی وزیرداخلہ امیت شا کے بیان "متانزعہ قانون سے اقلیتی برادری کا کوئی فرد متاثر نہیں ہوگا" کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتوں کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے تو پھر قانون میں اقلیتوں کی فہرست سے مسلمانوں کو کیوں خارج کیا گیا؟ بھارتی این ڈی ٹی وی کے مطابق عوامی جلسے سے خطاب میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش سے آنے والے وہ تمام لوگ جو الیکشنز میں ووٹ کاسٹ کررہے ہیں وہ بھارتی شہری ہیں، انہیں دوبارہ شہریت حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کسی ایک شخص کو بھی ریاست سے نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے مودی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ مغربی بنگال کو دوسرا دہلی نہیں بننے دیں گی۔
اُدھر ہیوسٹن میں مقامی ہوٹل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سینیٹر کرسٹوفر ہولن نے کہا کہ سیکولر بھارت میں آج مودی دورِ حکومت میں گاندھی کا ویژن رخصت ہورہا ہے۔ ٹرمپ دورہ بھارت کے موقع پر ایک حصے میں مودی سے مل رہے تھے تودوسرے حصے میں دہلی کے اندر مسلمانوں پر مسلح حملے ہورہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش سے بھارت کو آگاہ کرنے کے لیے سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کو خط لکھا تھا، جواب کا انتظار ہے جس کے بعد ہم خیال سینیٹرز کے باہمی مشورے سے بھارت کے حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ دوسری جانب دہلی مسلم کش فسادات میں 50 افراد ہلاک اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دہلی انتظامیہ نے فسادات پر عبوری رپورٹ جاری کردی ہے، جس کے مطابق انتہا پسندوں نے 122 گھر، 322 دکانوں اور 300 سے زائد گاڑیوں کو جلا کر راکھ کردیا۔ تشدد کے کیس میں اب تک 1300 لوگوں کی گر فتا ری ہوچکی ہے۔
اسی سیاق و سباق میں اگلے روز بھارت کے ممتاز اردو روزنامے "سیاست" نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران قومی یکجہتی، باہمی بھائی چارہ اور انسانیت کی جو تصویر سامنے آئی اس سے فرقہ پرستوں، بلوائیوں اور حملہ آروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ ملک کے دانشوروں اور علماء نے یک زبان ہو کر کہا کہ یہ ملکی جمہوریت پر حملہ ہے۔ یہ حملے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اتحاد کو توڑنے کے لیے کرائے گئے اور اس کے لیے باہر سے لوگ بلوائے گئے، لیکن شرپسند عناصر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اخبار کے مطابق جمعیت علمائے ہند کے رہنما مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ گزشتہ 70 سالوں میں ہندو مسلم اتحاد کی اتنی اعلیٰ مثال کبھی اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ان فسادات کے دوران ہندو مسلم ایک دوسرے کی مدد اور حفاظت کرتے ہوئے ملے۔ مولانا نے کہا کہ یہ کپل مشرا کی اشتعال انگیزی تھی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان فسادات میں بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ جسٹس سہیل صدیقی نے کہا کہ وزیراعلیٰ اروند کیج ری وال نے اپنی تقاریر میں بار بار اس امر کی نشاندہی کی کہ یہ نئی سیاست کا آغاز ہے۔ ان کا بھی یہی انداز نظر تھا کہ مودی حکومت صورتِ حال کو بگاڑنے کے لیے باہر سے افرادی طاقت منگوارہی ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھارتی سیاست اس وقت زوال اور ظلم و ستم کی تمام حدیں عبور کرچکی ہے۔ مودی اور اس کے حواری بھارتی جمہوریہ کی ارتھی اٹھانے کی تیاریوں میں ہیں۔ بھارت میں عقل و خرد اور ہوش مندی و انسانیت کی قدریں انحطاط پذیر ہیں۔ کشمیر سمیت بھارتی مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں، بھارتی شیرازہ بکھرنے کو ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج سے ایک صدی قبل ہندوستان کے سابق صدر اور فلسفی رادھا کرشنن نے اپنی کتاب میں کہا تھا کہ "نوع انسانی کے لیے یہ فیصلہ کن لمحہ ہے، ہم آج ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں المیے عالمگیر شکل اختیار کرچکے ہیں، انسانیت متحد ہونے کی بجائے تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے"۔ اب یہ بھا رت کے مو جو دہ دا نشورو ں کو سو چنا ہے کہ وہ اپنے سا بق صدر رادھا کر شنن کے بیان پہ کیا تبصر ہ کرتے ہیں۔