قارئین کو یا د ہوگا کہ بجٹ وا لے روز بجٹ آ نے سے پہلے میں نے اپنے جن خد شا ت کا اظہا ر کیا تھا، بد قسمتی سے وہ پو رے ہو کر رہے۔ کہنا یہ چا ہتا ہو ں کہ بجٹ کا عوام میں مجموعی تاثر یہ قائم ہورہا ہے کہ حکومت کے مالی محدودات اور اقتصادی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس سے ان کوکوئی بڑا ریلیف نہیں ملنے والا جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور کورونا وبا نے جن کی معاشی کمر بالکل ہی توڑ کے رکھ دی ہے۔ یہ غریب کش بجٹ ہے، اس کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت نے اپنی نالائقی پہلے مسلم لیگ (ن) اور اب کورونا کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی۔ مہنگائی، بیروزگاری، کاروباری بدحالی نے تاریخی ریکارڈ قائم کردیئے ہیں۔ یہ بجٹ نہیں تباہی کا نسخہ ہے۔ میرے خدشات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئے، افسوس حکومتی نااہلی کی سزا قوم اور ملک کو مل رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے زیادہ ترقی اور کم مہنگائی کا فارمولہ اپنایا، موجودہ حکومت نے الٹ کردیا۔ بجٹ اعلانات سے ثابت ہوا کہ حکومت اصلاح احوال اور دانشمندی کی راہ اپنانے کو تیار نہیں۔ ٹیکس ریونیو کا 1.7 ٹریلین ارب کا تاریخی خسارہ موجودہ حکومت کی کارکردگی ہے۔ 68 سال میں پہلی بار ملک میں جی ڈی پی منفی میں ہوچکی ہے۔ یہ ہے موجودہ حکومت کی کارکردگی؟ مسلم لیگ (ن) نے 5.8 فیصد جی ڈی پی شرح والی معیشت دی، موجودہ حکومت نے پہلے سال میں 1.9 پر پہنچادیا۔ رواں سال 10 فیصد مالی خسارہ ملکی معیشت اور بجٹ کے اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑ دے گا۔ تاریخ میں یہ فسکل خسارہ کبھی دو ہندسوں میں نہیں رہا۔ پہلی بار موجودہ حکومت نے یہ کام کر دکھایا۔ بجٹ اور اس کے اہداف غیر حقیقی ہیں۔ مسائل اور عوامی مشکلات مزید بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ غیر حقیقی بجٹ اہداف سے حکومت ساکھ کھو چکی ہے، پہلے اہداف پورے نہیں ہوئے نئے کے حصول میں میلوں کا فرق ہے۔ پہلی حکومت ہے جو ٹیکس ریونیو، حکومتی اخراجات، مالیاتی خسارہ اور ڈی جی پی کے اپنے مقرر کردہ اہداف بھی حاصل نہیں کر پائی۔ کورونا کے پیچھے چھپنے سے کام نہیں چلے گا۔ وبا سے پہلے معاشی بربادی حکومتی ناکامیوں اور بے سمت پالیسیوں کا کافی ثبوت ہے۔ سی پیک روک دیا گیا، بلوچستان کو نظرانداز کردیا گیا۔ ترقیاتی بجٹ میں کمی نیک فال نہیں۔ آئی ایم ایف کے دبائو پر تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنا ظلم ہے۔ اگر یہ بجٹ ہے تو قوم منی بجٹس کے لیے تیار رہے۔ وہ تخلیقی سوچ، برآمدات میں اضافہ، زراعت و صنعت کی ترقی اور عوام دوست بجٹ اقدامات کہاں ہیں؟ یہ بجٹ صرف پی ٹی آئی کے فنانسرز اور مفاد پرستوں کو نوازنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ گزشتہ سال کے معاشی جھوٹ اور غلط اندازوں کو دیکھتے ہوئے موجودہ اعداد و شمار اور اہداف پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے؟ موجودہ حکومت کورونا کو الزام دیتی ہے لیکن فروری سے پہلے ان کی معاشی کار کردگی اپنے اہداف سے 25 فیصد سے زائد کم تھی۔ تاریخ اور دنیا میں پہلی حکومت ہے جس نے اپنے گزشتہ سال سے بھی کم ٹیکس ریونیو جمع کیا۔ موجودہ حکومت کی 5555 ارب کی جگہ 3800 ارب ٹیکس وصولی مسلم لیگ (ن) کی دو سال قبل حکومت کی ٹیکس وصولیوں سے کہیں کم ہے۔ کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ 6.9 فیصد کمی کیوں ہوئی؟ کپاس اور گنے پر کورونا کا اثر نہیں ہوا پھر ان کی پیداوار کم کیوں ہوئی؟ معیشت چل نہیں رہی پھر حکومت 4963ارب ریونیو کا ہدف کیسے پورا کرے گی؟ جس کا صاف مطلب ہے کہ آئندہ آئی ایم ایف اجلاس سے قبل حکومت منی بجٹ پیش کرے گی۔ دو سال میں موجودہ حکومت نے قومی قرض میں 30 فیصد اضافہ کردیا۔ موجودہ حکومت رواں سال میں 2200 ارب روپے کا غیرملکی کرنسی میں غیرملکی ذرائع سے پہلے ہی قرض لے چکی ہے۔ حکومت مزید اتنا ہی قرض اور لینے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے جس سے پاکستان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل غیر ملکی بینکوں میں گروی رکھاجا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے انتہائی زیادہ شرح سود پر مقامی بینکوں سے 1723 ارب روپے قرض لیا۔ حکومت مقامی بینکوں سے آئندہ سال مزید ایک ہزار ارب قرض لینے جارہی ہے۔ حکومت نے 300 ارب کی جگہ 1700 ارب قرض لیا جو ہدف سے 500 فیصد زیادہ تھا۔
جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں صنعت اور زرعی شعبے کو ایڑ لگانے کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس تجاویز نظر نہیں آتیں۔ حالانکہ یہی دو شعبے ہیں جہاں سرگرمیاں شروع ہوں گی تو معیشت کی بحالی ممکن ہوسکتی ہے اور تجارتی و کاروباری مندی کو تیزی میں بدلا جاسکتا ہے۔ مشیرِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اقتصادی ٹیم کے ساتھ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا سے کاروبار بند ہوئے تو ایف بی آر وصولیاں بھی متاثر ہوئیں۔ انہوں نے بجا فرمایا، لیکن انہوں نے جو کچھ کہا اس سے کئی سوالات بھی ذہن میں ابھرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر کورونا کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو اکٹھا کرنے کے اہداف متاثر ہوئے تو یہ وبا اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چنانچہ اس صورتحال میں کیسے ممکن ہوسکے گا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس ریونیو کا جو ہدف اگلے مالی سال کے لیے مقرر کیا گیا ہے وہ پورا ہو، جبکہ اسی وبا کے تناظر میں کلی یا جزوی لاک ڈائون کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی پہلے جیسی نہیں رہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ٹیکس ریونیو کے اہداف پورے نہیں ہوتے تو اس صورت میں حکومت بجٹ میں پیش کردہ اخراجات پورے کرنے کے لیے کیا ایجنڈا رکھتی ہے؟ وزیراعظم کے مشیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ کانفرنس میں مالی سال 20ء کے پہلے نو ماہ کی جو خوشگوار منظر کشی کی ہے عوام کو اس سے اتفاق کرنے میں بھی تامل ہوگا۔ اگرچہ مشیر خزانہ کے بیان کردہ حقائق سے اختلاف ممکن نہیں۔ یعنی جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ملک میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 137 فیصد اضافہ ہوا یا یہ کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کی تعریف کی، یا موڈیز نے کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کردیا، یا بلومبرگ نے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ کو دنیا کی بہترین مارکیٹس میں شامل قرار دیا۔ یہ سبھی باتیں کہنے کی حد تک درست ہیں، مگر مشیر خزانہ نے جو بات اپنی پریس کانفرنس میں وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی وہ یہ ہے کہ مالی سال 20ء کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح گزشتہ تقریباًڈیڑھ دہائی کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی تھی اور بلند ترین شرح سود جو ایشیا بھر میں سب سے زیادہ تھی، کے باعث پاکستان میں نئے کاروبارکے لیے مسلسل رکاوٹیں درپیش رہیں۔ حالانکہ اس برس ملک میں توانائی کا کوئی بحران نہ تھا مگرباوجود اس کے ملک میں انڈسٹریلائزیشن کی جانب سے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایاجاسکا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے بیشترمنصوبے بھی جمود کا شکار ہوگئے۔ ان میں صرف سڑکیں یا پل ہی نہیں انڈسٹریل پارکس کے متعدد منصوبے بھی شامل ہیں۔ توانائی کے منصوبوں کی تکمیل ملک میں انڈسٹریلائزیشن کی شرط اول ہے مگر پاکستان کی حکومت وافر توانائی کی دستیابی کے باوجود پچھلے کم از کم ایک برس کے دوران صنعتکاری کی جانب سے کوئی بڑی پیش رفت نہیں دکھا سکی۔ حکومت نے اس سال کے دوران معیشت کو جس طرح بھی سنبھالا ہو، مگر عوامی معیشت کے نقطہ نظر سے یہ سال اچھا نہ تھا کہ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا تھا اور اس پر مہنگائی جو 12 فیصد سے تجاوز کرچکی تھی۔ کورونا کے بحران نے تو اس سال مارچ میں سر اٹھایا ہے، چنانچہ ہم تمام معاشی ناکامیوں اور عوام کے لیے معاشی بوجھ کا ذمہ دار کورونا کی وبا کو قرار نہیں دے سکتے۔ بہر کیف مستقبل میں ان کے منفی اثرات سے عوام کو بچانے اور معیشت کو استوار کرنے کے لیے حکومت کو بہت سنجیدہ فیصلے کرنا ہوں گے۔