پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون پرہمیشہ یہ الزام لگایاجاتا رہا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں باری باری اقتدار کا کھیل کھیلتی رہی ہیں اوراقتدار و اختیارات کا سارامنبع اپنے ہاتھ میں رکھ کرکبھی ایک پارٹی اور کبھی دوسری پارٹی اسلام آباد میں حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی ہیں۔
سیاست میں 20 برس تک جدوجہد کرنے والے ہمارے آج کے وزیراعظم اپنے مخالفوں پر ایسے ہی الزام بڑی شدومد کے ساتھ لگاتے رہے ہیں۔ اُن کااوراُن جیسے بہت سے لوگوں کا بھی یہی خیال تھاکہ ملک میں جمہوریت کے نام پر یہی دوسیاسی پارٹیاں سانپ اورسیڑھی کاکھیل کھیلتی رہی ہیں اورباری باری اقتدار و اختیارت کی ندی میں خوب ڈبکیاں لگاتی رہی ہیں۔ حالانکہ پس پردہ کوئی اور قوت جمہوریت کے فروغ کے نام پر یہ ساری سیاسی بساط خود بچھاتی بھی رہی ہیں اورالٹتی بھی رہی ہیں۔
دو، دو اورڈھائی ڈھائی سال میں کبھی آئین کی شق 58-2B کے تحت جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا جاتا رہا اورکبھی براہ راست مارشل لاء لگا کر آئینی اور دستوری حکومتوں کاخاتمہ کیاجاتارہا۔ یہ باری باری اقتدار میں آناکسی سیاسی پارٹی کے اختیارمیں ہی نہیں ہے، وہ توساری کی ساری جماعتیں کسی اور کے رحم وکرم پر گذربسر کیاکرتی ہیں۔
عوامی مینڈیٹ کی ساری باتیں صرف دل خوش کرنے کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں تو مجبوراً یاباامرتوفیق و صبراُن انتخابی نتائج کو قبول کرتی رہی ہیں۔ جس نے جرات رندانہ دکھانے کی کوشش کی وہ یاتو جیل میں ڈال دیاگیایا پھر جبراً جلاوطن کردیاگیا۔ یہی ہمارے جمہوری نظام کا المیہ ہے۔ یہاں کسی کو اس قدر مضبوط اورمستحکم ہونے ہی نہیں دیاجاتاکہ وہ عوام طاقت کے بل بوتے پرآنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرسکے۔
ہمارے یہاں اگلا حکمراں کون ہوگا یہ فیصلہ عوام نے نہیں کرناہوتاہے۔ یہ کہیں اورطے کیاجاتاہے اوراِس پرکام چند مہینوں میں نہیں بلکہ کئی برس پہلے کر دیاجاتاہے۔ 2018تحریک انصاف کوجتانے کا کام 2011 میں کردیاگیا۔ یہ اوربات ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود 2013کے الیکشن میں وہ کامیاب نہ ہوسکے اور پھر 2018 میں اس مقصد سےRTS کانظام مروج کیاگیا۔ یہ RTSسسٹم پانچ چھ گھنٹوں کے لیے کیسے بند ہوگیا یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا۔ اب اگلے الیکشن کو صاف اورشفاف بنانے کی خاطر الیکٹرانک مشین لائی جا رہی ہے جس کے بعد شاید یہ کام اور بھی آسان ہوجائے گا۔ صرف چند صفر بڑھاکر نتائج حسب ضرورت اورحسب منشاء بنادیے جاسکیں گے۔ پھر نہ کوئی چیلنج کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی احتجاج کرنے والا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی یہ خوبی ہے کہ وہ سندھ میں توہمیشہ جیتتی رہی ہے لیکن بلوچستان میں بھی وہ اتنی طاقتور ہے کہ 2013 کی اسمبلی میں ایک سیٹ بھی نہ رکھنے کے باوجود وہ وہاں مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کو منٹوں میں زمین بوس کردیتی ہے۔ اُس کی یہ سحر انگیز حیران کن کرشماتی حیثیت کے ہم سب آج بھی گواہ ہیں کہ معاملہ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کے تحریک کا ہو یاپھر بطور قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کا ہو پیپلزپارٹی جس طرح اپنی طلسماتی خوبیوں کی بدولت کارگر اورکامیاب ہوجاتی ہے وہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے خدوخال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ صادق سنجرانی کا اول ترین انتخاب بھی پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف دونوں کے ایک ساتھ ہوجانے اورمل جانے کی بدولت ہی ممکن ہواتھا۔
پھر کیوں نہ صادق سنجرانی BAPپارٹی کے ووٹ یوسف رضاگیلانی کو نہ دلواتے۔ آج عبدالقادر بلوچ اورثناء اللہ زہری صاحب کس طرح مسلم لیگ نون سے نکل کراچانک پاکستان پیپلز پارٹی کے پلڑے میں آگرے ہیں اِسی طرح آنے والے دنوں میں پنجاب میں بھی بہت سے لوگ پیپلزپارٹی کے ہم نواز اورہم سفر بننے والے ہیں۔ اس پرکام شروع ہوچکاہے اورقوم دیکھے گی کہ جو پارٹی آج پنجاب میں اتنی غیرمقبول ہوچکی تھی کہ وہاں کی صوبائی اسمبلی میں بھی دس پندرہ سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کرپائی تھی اچانک دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی ہے۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں ہوجایاکرتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں سیاسی پارٹیوں کے مقدر کے فیصلے عوام نے نہیں کرنے ہوتے ہیں۔ اقلیت کو حق حاکمیت عطا کرنے کایہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو ہم 2023 کے الیکشن میں حکمراں جماعت کے طور پراس لیے دیکھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ نون ابھی تک ناپسندیدہ پارٹی بنی ہوئی ہے۔ وہ اپنا طرزعمل اوربیانیہ بدلنے کو تیار نہیں ہے اورتحریک انصاف اپنی ناقص کارکردگی کی بدولت عوام میں تیزی سے غیر مقبول بھی ہوتی جارہی ہے۔
اِس موجودہ صورتحال میں صرف پاکستان پیپلزپارٹی ہی ایسی جماعت ہے جو مقتدر حلقوں کے لیے سب سے زیادہ قابل قبول جماعت کے طور پر موجود ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے سیاسی بت اورقدآور اشخاص تحریک انصاف او ر مسلم لیگ نون کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کے آشیانے میں جگہ بنالیں گے۔ فیصلہ کن قوتوں نے ہمیشہ متبادل کے طور پرکسی نہ کسی کاانتخاب کیاہوا ہوتا ہے۔ اُن کی اولین کوشش تو یہی ہے کہ خان صاحب ہی اگلے الیکشن میں بھی کامیاب وکامران ہوجائیں لیکن الیکشن نتائج میں ردوبدل بھی اُس وقت ممکن ہوتاہے جب دو بڑی پارٹیوں میں فرق کوئی بہت زیادہ بڑانہ ہو۔ عوام جسے مکمل طور پر رد کر دیں فیصلہ اُس کے حق میں کروانا قطعاً ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں عوام کاغیظ و غضب سخت جمہوری ردعمل کامحرک بھی بن سکتاہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے شاید اِس لیے بھی قابل قبول ہے کہ اُس کی قیادت نے اُن کے خلاف بیان بازی میں اپنی زبانیں بند کی ہوئی ہیں اوروہ یہ خوش کن دعویٰ بھی کرتی رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب نیوٹرل ہوچکی ہے۔ اُس کی یہ ادا اُسے اگلاالیکشن جتانے میں اہم کردار اداسکتی ہے۔
جس طرح کشمیرکے انتخابات میں بھی اُسے دوسری بڑی پارٹی کے طور پرجتوایاگیاہے اُسی طرح اگلے عام انتخابات میں اُس کاکامیاب ہوجانا قطعی طور پرناممکن اورانہونا نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کاباری لگاکر اقتدار میں آنا خود اُن کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہ فیصلہ کون کرتاہے تحریک انصاف کواگلے الیکشن میں یقینا معلوم ہوجائے گااورپھر حیران کن طور پر وہ اُس سیاسی پارٹی کے ساتھ مل کر ہی اپوزیشن کارول اداکر رہے ہونگے، جس کے وہ آج مخالف بنے ہوئے ہیں۔